یانبیؐ، اپنی غلامی کی مجھے دستار دیں- تحدیث نعمت (2015)
یا نبیؐ اپنی غلامی کی مجھے دستار دیں
کربلائے عَصرِ نو میں سایۂ دیوار دیں
زرفشاں لمحات کی برسات میں بھیگے نظر
اپنے شاعر کو، رسولِ محتشمؐ، دیدار دیں
سیلِ تند و تیز کے سر کش تھپیڑوں سے نجات
بارشوں میں عافیت کی کشتیاں سرکارؐ دیں
راستے گم ہیں جہالت کے اندھیروں میں، حضورؐ
علم کی زرخیز مٹی سے اٹے اشجار دیں
عشق میں ڈوبے ہوئے قلب و نظر کی روشنی
عشق کے گلزار میں مہکی ہوئی اقدار دیں
ہم جنہیں دعویٰ ہَے حُبِّ سیّدِ ساداتؐ کا
کاش بچّوں کو اجالوں سے لکھا کردار دیں
شہرِ طیبہ کی ہوائیں آج بھی پڑھ کر درود
ہر قدم پر قافلوں کو صبح کے آثار دیں
میری چشمِ التجا ہَے منتظر، آقا حضورؐ
گنبدِ خضرا کے لاکھوں سرمدی انوار دیں
سرد خانوں میں پڑی ہیں سوچ کی سب گٹھڑیاں
اُمّتِ ناداں کو آقاؐ، گرمٔی بازار دیں
جھوٹ پر مبنی کتابیں مکتبوں کا ہیں نصاب
امنِ عالم کے ’’خداؤں‘‘ کے نئے افکار دیں
ہَے غنیمت آج اخبار و رسائل کا وجود
ہر صحافی کے قلم کو جرأتِ اظہار دیں
شہرِ طیبہ کے گلی کوچوں کے بچّوں کو سلام
جان اپنی اِن کے قدموں پر خوشی سے وار دیں
مَیں نے جبریلِ امیں سے عرض یہ کی ہَے ریاضؔ
مجھ کو عشقِ مصطفیٰؐ میں جھومتے اشعار دیں