تحدیثِ نعمت- زر معتبر (1995)
زندگی کے ریگ زاروں میں تنہا کھڑا ہوں، سوا نیزے پر یاسیت کا سورج آگ برسا رہا ہے۔ اپنے ارد گرد نظر دوڑاتا ہوں تو محرومیوں اور ناکامیوں کی خاک کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ جلے خیموں سے اُٹھنے والا دھواں منظر نامے کے ہر عکس کو دھندلا رہا ہے، شبِ انحراف کے سائے گہرے ہوتے جا رہے ہیں، ایک گھمبیر اور سنگین سناٹا چاروں طرف محیط ہے، مسائل و مصائب کی آگ کا ایک لا متناہی سلسلہ جھوٹ، دجل، فریب اور منافقت سکہ رائج الوقت، تنہائی کا سائیں سائیں کرتا ہوا جنگل، شرفِ انسانی کی ہر قدر کو بھی زر کی ترازوں میں تولنے کی روایت ایک اذیت ناک کرب روز و شب پر محیط، اور تحویل میں ایک جگنو بھی نہیں۔ کوئی ویرانی سی ویرانی ہے، وحشت، خوف اور بربریت کی حکمرانی ہے۔ جبر کی سنگلاخ چٹانوں میں راستہ بنانا دشوار ہو رہا ہے۔ لیکن ایک زندہ اور توانا احساس اس اندوہناک پس منظر میں بھی سانس کی ڈوری کو ٹوٹنے نہیں دیتا اور دل کی ہر دھڑکن کا جواز فراہم کرتا ہے۔ وہ زندہ اور توانا احساس دہلیز مصطفیٰ سے رزقِ شعور پاتا ہے۔ وہ حسین و جمیل احساس یہ ہے کہ میرا ہر لفظ باوضو ہو کر اور میری ہر سانس احرام باندھ کر والی کون و مکاں کی بارگاہِ اقدس میں سر بسجود ہے، کشکول آروز زرِ معتبر سے لبریز ہے، بازارِ مؤدت کا سب سے مستند حوالہ، امیر و فقیر، شاہ و گدا کی کوئی تفریق نہیں، عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں، یہ زندہ اور توانا احساس اُس پیکرِ جمال کے نقوشِ پا کے تصدق میں ظہور پذیر ہونے والے بے مثال اور لازوال موسموں کی رعنائیوں اور شادابیوں سے اکتسابِ نمو کر رہا ہے جو مقصودِ تخلیقِ دو عالم بھی ہے اور ممدوحِ ربِ دوجہاں بھی، کائناتِ رنگ بو میں اُترنے والی ہر ساعت ہر لمحہ اور ہر گھڑی حرفِ ثنا لبوں پر سجا کر جس انسانِ کامل کی چوکھٹ پر اذنِ باریابی کی منتظر ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ کب خلعتِ انوارِ عشق مصطفیٰ کلکِ بامراد کو عطا ہوئی، میں نہیں جانتا کہ کب سے نزولِ آیتِ عشقِ نبی کی بادِ بہاری گلشنِ ہستی کی روش روش پر مہک رہی ہے، مجھے نہیں خبر کہ کب منصبِ نعت گوئی کا زائچہ ہاتھ پر رقم ہوا، اور کب اور کہاں متاعِ قلب و جگر مکینِ گنبدِ خضرا کے نعلین پاک پر نثار ہوئی۔ مجھے تو یوں لگتا ہے، جیسے ازل سے درودوں کے گجرے اور سلاموں کی ڈالیاں لیے غریبوں کے والی اور یتیموں کے مولا کے حضور دست بستہ کھڑا ہوں اور حکمِ خداوندی بجا لا رہا ہوں۔ ذاتِ باری تعالیٰ خود نبی مکرم پر درود بھیجنے کا اعلان کر رہی ہے اور ایمان والوں کو حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کثرت سے درود و سلام بھیجنے کا حکم دے رہی ہے۔
ایک شاعرِ بے نوا کی اوقات ہی کیا ہے۔ ذرّے کو آفتاب سے کیا نسبت اور جس کی حیثیت ایک ذرّے کے برابر بھی نہ ہو! جب اپنے من کی دنیا میں جھانک کر دیکھتا ہوں تو عجز و انکسار کے پانیوں میں ڈوب جاتا ہوں، کلماتِ عجز روح کی گہرائیوں سے اُبھرتے ہیں، ہرطرف توصیفِ مصطفیٰ کے پھولوں کی بہار دکھائی دیتی ہے، نعتوں کی اَن گنت کہکشائیں حریمِ دیدہ و دل میںپَر فشاں نظر آتی ہیں تو صدیوں کی تھکن ایک پل میں کافور ہو جاتی ہے۔ جبرکی سنگلاخ چٹانوں میں راستے خود بخود قدموں کی پذیرائی کے لیے نکلنے لگتے ہیں، محرومیوں اور ناکامیوں کی راکھ ادھ کھلی کلیوں میں تبدیل ہو جاتی ہے، اطمینان اور سکون کی ایک گنگناتی ہوئی لہر بڑھ کر اپنے بازوؤں میں لے لیتی ہے۔ رنگوں، روشنیوں اور خوشبوؤں کی چادر روح اور بدن کے ہر زخم کو ڈھانپ لیتی ہے، فکر و نظر کے ویران جزیروں پر بادِ صبا رتجگے منانے لگتی ہے، دل کے آنگن سے بے جواز لمحے رخصت ہونے لگتے ہیں، دامنِ اُمید اعتماد و اعتبار کی دولت سے بھر جاتا ہے، سر خود بخود احساسِ ممنونیت سے جھک کر بارگاہِ خداوندی میں سجدۂ شکر بجالاتا ہے اور نغمۂ حمد لبوں سے چھلک پڑتا ہے۔ ایک تہی دامن، بے نوائے شہر، ملکِ سخن کی شاہی کو اپنے ہمرکاب پاتا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ دست قدرت نے مدحتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے باب میں لفظِ زوال درج ہی نہیں کیا، یہ سرمدی نغمہ تو ازل سے لامکاں کی وسعت میں گونج رہا ہے اور ابد کے بعد لامکاں میں بھی یہی نغمہ سنائی دے گا، اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر کو بلند کرنے والا اس جہانِ رنگ و بو کا مالک و خالق ہے جو اوّل بھی ہے اور آخر بھی، جو حیی بھی ہے اور قیوم بھی جو خبیر بھی ہے اور علیم بھی۔ اگر نعت کے معانی معلوم کرنا ہوں، اگر نعت کا مفہوم و مقصود مطلوب ہو اور جستجو ہو کہ نعت کسے کہتے ہیں تو خدائے لم یزل کی آخری کتاب قرآن مجید کی دل کی آنکھوں سے تلاوت کرنا چاہیے، تاجدارِ کائنات کا چہرۂ اقدس ورق ورق پر جلوہ گر نظر آئے گا۔ قرآن ایک مسلسل نعت ہے، ہر سمت سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محامد و محاسن کی دھنک، ہر طرف اُنہیؐ کے تذکارِ جلیلہ کی روشنی، یہ نعت خود خالقِ ارض و سماوات نے کہی ہے، دستِ قدرت نے خود اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شمائل و فضائل کی قندیل فروزاں کی ہے، فطرت نے خود گلستانِ ثنا کی حنا بندی کی ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شاعر سنتِ ربِ جلیل کا پرچم لیے فصیلوں پر ثنائے رسول کے چراغ سجا رہا ہے، نفس نفس وفا شناسی کے پودے لگا رہا ہے اور اپنے کج مج سے لفظوں میں اسمِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشبو بکھیر رہا ہے اور حشر کے دن بوقتِ عدل داورِ محشر کے حضور اپنی بیاضِ نعت لئے حاضری کا آرزومند ہے۔
یہ جون 1985 کا واقعہ ہے، رمضان المبارک کے آخری عشرے کا آغاز ہو چکا تھا، بخت نے یاوری کی، مقدّر کا ستارہ چمکا اور ایک دن، جو صدیوں پر محیط تھا، جس کا سورج آج تک میرے وجدان میں غروب نہیں ہوا، بادِ صبا گلزارِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حضوری کا پروانہ لے کے آپہنچی۔ جی چاہا دیوانہ وار گلیوں میں نکل جاؤں، رقص کرتے کرتے تتلی بن جاؤں اور سوئے مدینہ اُڑ جاؤں... ایک عجیب کیف کا عالم تھا، یوں محسوس ہوا جیسے ازل سے سفر میں ہوں اور قافلۂ شوق شہرِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب رواں دواں ہے۔ حضوری کے تصور سے لہو کی ایک ایک بوند ناچ اُٹھی، ہر موئے بدن حرفِ سپاس بن گیا۔ اور پھر سچ مچ بادِ صبا اُنگلی پکڑ کر مجھے میرے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں لے گئی، مدینہ پاک کی ہوائے خنک میں سانس لینے کا اعزاز حاصل ہوا، شہرِ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معطر و معنبر گلیوں میں سراغِ نقشِ پائے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں قدم قدم، قدم بوسی کا شرف حاصل ہوا، بے تاب نظروں کو طوافِ گنبدِ خضرا کی سعادت نصیب ہوئی، سنہری جالیوں کی ٹھنڈک قلبِ تپیدہ کو خنک ساعتوں کے لمس سے ہمکنار کر گئی۔ کیا عرض کروں، نہ زبان میں اتنی سکت ہے کہ بیان کے مرحلے سے گزر سکے اور نہ لفظوں میں اتنی جرأت کہ اظہار کے لیے لب کھول سکیں۔ میں نے ان جاگتی آنکھوں سے درِ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جذبات و احساسات کی بیساکھیوں کو ٹوٹتے اور لفظوں کو ہوا میں تحلیل ہوتے دکھا ہے۔ لمحاتِ حضوری کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ہر چیز سیلِ اشکِ رواں میں بہہ جائے۔ اور اندر کی ہر کثافت دُھل جائے اور مطلعٔ کشورِ دل پر ستاروں کے جھرمٹ اُتر آئیں۔
’’زرِ معتبر‘‘ میں درِ اقدس کی حاضری تک کا کلام شامل ہے۔ کلماتِ تشکر و امتنان استاذ مکرم حضرت آسی ضیائی کے لیے جنہوں نے ہاتھ پکڑ کر مجھے لکھنا سکھایا، ہر قدم پر میری اصلاح ہی نہیں رہنمائی بھی کی۔ اِس صحیفۂ نعت میں شامل تقریباً سبھی نعتیں مواجہ شریف میں کھڑے ہو کر سردارِ کائنات کی خدمتِ اقدس میں پیش کرنے کی لازوال سعادت حاصل ہوئی: حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مطلع عرض کیا ہے، آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ شعر دیکھئے، مولاؐ مقطع ملاحظہ فرمائیے۔ فارسی، اردو، پنجابی کے تقریباً ساڑھے تین سو شعرا کا ایک ایک نعتیہ شعر بھی ڈائری میں لکھ رکھا تھا۔ یارسول اﷲ! یہ ہمارے احمد ندیم قاسمی ہیں، انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ بیکس پناہ میں یہ شعر نذر کیا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قبول فرمائیے، یہ ہمارے حفیظ تائب ہیں ان کا یہ شعر سماعت فرمائیے اور انہیں ردائے شفا عطا کیجئے....
آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے گھر کا بچہ بچہ سلام عرض کر رہا تھا، ننھے مُنے بچے دونوں ہاتھ اٹھا کر سلام کہتے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب کنیزیں دست بستہ کھڑی تھیں، سرکارؐ، میرا پاکستان آپ کے غلاموں کا حصارِ آہنی ہے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اغیار نے اس کا مشرقی بازو کاٹ لیا ہے۔ آقاؐ میرے وطن پر کرم اور مسلسل کرم، آقاؐ میرے وطن کی ہواؤں کا سلام قبول کیجئے۔ ایک غلام اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں سرجھکائے مجرموں کی طرح کھڑا تھا، ستونوں کے پیچھے چھپ رہا تھا، آنسوؤں، ہچکیوں اور سسکیوں کی زبان میں اپنے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نجانے کیا کچھ کہتا رہا اور نجانے کیا کچھ کہتا رہے گا... ایک عجیب سی تمنا دل میں مچلتی رہتی ہے کہ مرنے کے بعد بھی سپاس گذاری کا یہ سلسلہ جاری رہے اور حشر کے دن جب ہجومِ تشنہ لباں میں مَیں بھی گُم صُم کھڑا ہوں تو حضور ؐفرمائیں کہ آؤ ریاض آج بھی کوئی نعت سناؤ اور میں بڑھ کر اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں کو تھام لو۔
ریاض حسین چودھری
23 جنوری 1995ء
لاہور
میری نجات کا یہ وسیلہ بنے حضورؐ
اِک بے نوا غلام کا دیواں قبول ہو