ورق کو ذوقِ جمال دے گا، قلم کو حسنِ مقال دے گا- زر معتبر (1995)

ورق کو ذوقِ جمال دے گا، قلم کو حُسنِ مقال دے گا
اُسی کا ذکرِ جمیل شہرِ غزل کی گلیاں اجال دے گا

میں ایک شاعر حروفِ نو سے کشید کرتا رہا ہوں کرنیں
وہ مہرباں مجھ سے بے ہنر کو سخنوری کا کمال دے گا

فصیلِ ارض و سما پہ میں نے چراغ مدحت کے رکھ دیئے ہیں
خُدا مجھے بھی حصارِ ہجر نبیؐ میں سوزِ بلالؓ دے گا

وہ جِس کی خوشبو چمن چمن ہے سمن سمن ہے دہن دہن ہے
وہ پھول باغِ جہاں میں دُکھتے دلوں کے کانٹے نکال دے گا

کِھلے ہیں اُس کے نقوشِ پا سے تمدنوں کے گلاب چہرے
کتابِ تشکیک کا مصنف کہاں سے ایسی مثال دے گا

مَیں دُکھ کی چادر میں زخم اپنے چُھپائے پھرتا رہوں گا کب تک
وہ کملیؐ والا وہ سب کا آقاؐ مجھے بھی رحمت کی شال دے گا

ثباتِ قَصرِ وفا بھی وہ ہے ازل سے حرفِ دُعا بھی وہ ہَے
اُدھورے جسموں کو اعتبارِ وجود اُس کا خیال دے گا

سکھایا ہے سر اُٹھا کے چلنا زمین پہ جس نے گرے ہوؤں کو
وہی رُسولِ عظیم میری زباں کو اذنِ سوال دے گا

حدودِ طائف میں زخم کھا کر دُعا کے سکے لُٹانے والا
بریدہ جسموں پہ سبز چادر عطا و بخشش کی ڈال دے گا

سرابِ جاں میں بھٹکنے والو، غبارِ شب میں سلگنے والو
نصابِ تہذیبِ اخروی ہی یقینِ کامل کی ڈھال دے گا

کسے خبر تھی کسے خبر ہے کہ ذہنِ اِنساں کو دھونے والا
بڑے تفاخر سے دستِ آدم میں محنتوں کی کدال دے گا

اُسی کا دستِ کرم غبارِ سفر کی جلتی ہوئی فضا میں
ریاضؔ ننگے سروں سے کالی بلا کے سائے کو ٹال دے گا