وہ فردِ واحد جسے تصور سے ماورا زندگی ملی ہے- زر معتبر (1995)

وہ فردِ واحد جسے تصور سے مَاورا زندگی ملی ہے
ازل سے لے کر ابد تلک وہ ہر ایک انسان کا نبی ہے

محیط ہونے لگی ہے شبنم، حدودِ شہرِ صدا پہ پھر سے
سرورِ نعتِ نبیؐ سے کلکِ ریاض نشے میں جھومتی ہے

ہوائیں گذریں گی دے کے بوسہ، ستارے آکر کریں گے منت
مریِ جبیں میں درِ محبت کی خاکِ انور سے روشنی ہَے

وہ حرفِ آخر نصابِ ارض و سما کی ساری عبارتوں کا
جہانِ فکر و نظر کی ندرت، فُنون و دانش کی نغمگی ہَے

اُسی کا چہرہ نظر نظر ہے، اُسی کا جلوہ سحر سحر ہَے
کتابِ دل کے ورق ورق پر اُسی کی سیرت لکھی ہوئی ہے

مِرے تخیل کے پانیوں میں صدف صدف عکسِ شہرِ طیبہ
ہر ایک موجِ رواں کے ہونٹوں پہ آرزوؤں کی تشنگی ہے

وہ جس کی کملی میں منہ چھپا کر شعور میرا بھی مثلِ مہ ہَے
وہؐ جس کے قدموں کی خاک لے کر دھنک کی مالا چمک رہی ہے

طُلوعِ مہرِ حرا سے ٹوٹا حصارِ شب کا نظامِ باطل
تمدنوں کی جبیں کی کالک اُسی کے قدموں کو ڈھونڈتی ہے

قدم قدم اُس کا دستِ رحمت سروں پہ سایہ فگن رہا ہَے
نفس نفس بھی اُسی کے صدقے سحر کے آنگن میں دلکشی ہَے

حضورؐ اپنے غلام زادوں کو اذن بخشیں گذارشوں کا
فصیلِ شہرِ دُعا پہ میری صدا بھی آکر ٹھہر گئی ہے

مِرے لُہو کے ہدف جزیروں کی برف پگھلے گی مہرتاباں؟
حضورؐ سینے میں سانس میری بہت دنوں سے رکی ہوئی ہے

مَیں اپنی آنکھوں کی کم نگاہی کا کر رہا ہوں حضورؐ ماتم
دُکانِ شیشہ گراں پہ لیکن شبیہِ حرفِ غلط سجی ہے

اگرچہ گھونگھٹ اُلٹ رہی ہیں مِرے چمن کی اُداس کلیاں
مگر یہ کون و مکاں کے ہادی برہنہ وحشت گلی گلی ہے

اُداس پنچھی حضورؐ نوحہ کناں ہیں جلتی ہوئی فضا میں
حضورؐ فصلِ بہار کی بھی شہاب صُورت بُجھی بُجھی ہَے

ہلاکتوں کے سیہ سمندر لہو ہمارا اُگل رہے ہیں
ہوائے برہم کے سخت ہاتھوں میں تیریؐ اُمت بکھر چکی ہے

حضورؐ ابرِ کرم کہیں سے، بہارِ نقشِ قدم کہیں سے
گلاب چہروں کی ارضِ خوشبو، خزاں کا پھر سے ہدف بنی ہے

مِرے وطن کی گلاب گلیوں میں رنگ و بُو کے کُھلیں دریچے
سپاہِ برگِ خزاں اِدھر بھی اُدھر بھی ڈیرے جما رہی ہَے

نجات جلتی ہوا سے آقاؐ، نجات شامِ بلا سے آقاؐ
رُسولِؐ رحمت کرم کی بارش، زمینِ تشنہ پکارتی ہَے

حضورؐ پرچم صداقتوں کا عطا ہو ملت کے رہبروں کو
فضائے کرب و بلا ابھی تک منافقوں سے اَٹی پڑی ہے

یقیں ہَے شاخِ حروفِ شام و سحر پہ اُتریں گے سبز موسم
حضورؐ سُوکھے ہوئے لبوں پر، دُعا بھی آکر مچل گئی ہے

مَیں اپنے اشکوں سے روز کرتا ہوں آبیاری زمینِ دل کی
ریاضؔ کشتِ مراد میری اِسی لیے تو ہری بھری ہے