حدیثِ دلِ مہجوراں (ڈاکٹر عزیز احسن)- زم زم عشق (2015)
اردو شاعری بالخصوص غزل میں لگے بندھے مضامین کی بھرمار اور یکساں خیالات کی یلغار نے ایک دن ایسی صورت بھی پیدا کردی تھی کہ غزل گو شاعر بھی اس شعری سرمائے کو بُرا جاننے لگے تھے، حالیؔ نے لکھا۔
’’اب جو پچھلوں نے اگلوں کی تقلید کرنی شروع کی تو نہ صرف مضامین میں بلکہ خیالات میں، الفاظ میں، تراکیب میں، اسالیب میں، تشبیہات میں، استعارات میں، بحر میں، قافیہ میں اور ردیف میں، غرضیکہ ہر ایک بات اور ہر ایک چیز میں ان کے قدم بقدم چلنا اختیار کیا، پھر جب ایک ہی لکیر پیٹتے پیٹتے زندگی اجیرن ہوگئی تو نہایت بھونڈے اختراع ہونے لگے۔‘‘
(مقدمۂ شعر و شاعری، ص: 31)
ادب میں لکھاریوں کی یہی روش بعد کے ادوار میں Cliche, Doxa, Stereotype یعنی خیال، نظرئیے، شعری بنت قافیہ چمکانے اور ردیف نباہنے کی بھونڈی صورت اور اظہاری ڈھانچوں کی تکرار، توارد اور یکسانیت کے حوالے سے اکتاہٹ کی طرف اشارہ کرنے والے الفاظ نے وجود پایا۔ اس طرح ہر ایسا ادب بدنام ہوا جو صدیوں کی روایت کے چنگل سے نہ نکل سکا تھا۔
ہمارے ہاں روایت سے بغاوت کی مثال غالب کی ہَے جس نے کسی ہم تخلص شاعر کی مماثلت سے بیزار ہوکر اپنا تخلص اسد سے غالب کرلیا تھا۔ قاضی عبد الجلیل جنون کے نام خط میں غالب نے لکھا :
’’اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اور کی غزل میرے نام پر لوگ پڑھ دیتے ہیں۔ چنانچہ انہیں
دنوں میں ایک صاحب (منشی شیو نرائن آرام) نے مجھے آگرے سے لکھا کہ یہ غزل بھیج دیجئے۔
اسدؔ اور لینے کے دینے پڑے ہیں
مَیں نے کہا لا حول ولا قوۃ۔ اگر یہ کلام میرا ہو تو مجھ پر لعنت۔ اسی طرح زمانۂ سابق میں ایک صاحب نے میرے سامنے یہ مطلع پڑھا
اسد اس جفا پر بتوں سے وفا کی
مرے شیر، شاباش رحمت خدا کی
مَیں نے سن کر عرض کیا کہ صاحب، جس بزرگ کا یہ مطلع ہے اس پر بقول اس کے رحمت خدا کی اور اگر میرا ہو تو مجھ پر لعنت، اسدؔ اور ’’شیر‘‘ اور ’’بت‘‘ اور ’’خدا‘‘ اور ’’جفا‘‘ اور ’’وفا‘‘ میری طرزِ گفتار نہیں ہَے‘‘
(خطوطِ غالب، غلام رسول مہر ص: 438)
عام شاعری کی بہ نسبت نعتیہ شاعری میں دہرائے جانے والے مضامین، اسالیب کی یکسانیت، خیال کی تکرار، ہم آہنگی، جذبے کی سطحیت اور بیان کی عمومیت نے وہ فضا پیدا کردی تھی کہ ادب کے سنجیدہ لکھاری اس طرف متوجہ ہی نہ ہوسکے، بس تبرکاً ایک آدھ نعت کہہ لی اور اسی کو زادِ آخرت سمجھ کر اپنے دواوین کا حصہ بنالیا۔ چنانچہ معیاری کلام کی مقداری کمی اور غیر معیاری کلام کی بہتات نے ’’نعت‘‘ کو ادبی سطح پر صنفِ سخن کے طور پر ابھرنے کا موقع نہیں دیا۔ الحمدللہ! اب یہ فضا بدل چکی ہے حالانکہ ’’نعت‘‘ ہر عہد کی ’’روحِ عصر‘‘ ہَے لیکن ہمارے ادبی افق پر ’’نعت‘‘ ایک طویل عرصے بعد ادب کی ’’روحِ عصر‘‘ بن کر ابھری ہے۔
ریاض حسین چودھری کی شعری اقدار میں جدت کا عنصر اس بات کا غماز ہَے کہ وہ شعوری طور پر نعت کو صنفِ ادب میں نمایاں صنف کے طور پر ابھرتا دیکھنے کے متمنی ہیں، مجھے ان کا وہ انٹرویو یاد آگیا جو شہید آفتاب احمد نقوی نے ’’اوج‘‘ کے نعت نمبر کے لئے 1992ء میں کیا تھا۔ ان سے سوال کیا گیا:
’’نعت کے سلسلے میں جدید و قدیم کی اصطلاحات سے آپ کہاں تک اتفاق کرتے ہیں آپ کے نزدیک جدید نعت کیا ہَے؟ اس کے جواب میں انہوں نے کہا تھا :
’’نعت کے سلسلے میں جدید و قدیم کی اصطلاحات سے اتفاق نہ کرنے کی کوئی وجہ میری سمجھ میں نہیں آتی۔ نعت نگاری ایک صنفِ سخن ہے اور دیگر اصنافِ سخن کی طرح اس میں بھی فنی ارتقا ممکن ہے بلکہ ہوتا ہے، جدید نعت قدیم نعت سے کئی حوالوں سے مختلف ہے، جدید نعت میں سوچ اور اظہار کے بھی نئے آفاق مسخر ہو رہے ہیں۔‘‘
(’’اوج‘‘ نمبر 1ص 644)
تخلیقی سطح پر اگر کسی نعت گو شاعر کو اس بات کا احساس رہتا ہے کہ ’’جدید نعت میں سوچ اور اظہار کے بھی نئے آفاق مسخر ہو رہے ہیں‘‘ تو یہ اس بات کا اشاریہ ہَے کہ وہ نعت گو بحیثیت مجموعی ’’ادب‘‘ کی قدیم وجدید تخلیقی تحریروں سے نہ صرف واقف ہَے بلکہ اچھے اور کم اچھے اور اچھے یا بُرے ادب میں امتیاز بھی کرسکتا ہَے۔ ایسے ہی شعراء اپنی تخلیقات میں کسی صنفِ ادب کو کچھ نئی آواز، نیا انداز، نئے محاورے، نئے لہجے، نئے اسالیب اور نئے مزاج کا ’’متن‘‘ (text) دے سکتے ہیں ایسے ہی شعرا ادب کو مکمل فرسودگی آمیز تخیل اور گھسے پٹے یا مسترد شدہ اندازِ فخر و تخیل
(Cliche ridden imagery and obsolete thought)
کے پنجے سے چھڑا سکتے ہیں اور ایسے ہی لکھاری ادب کو تازہ ہوا فراہم کرنے والے تخلیق کار ہوتے ہیں۔
ریاض حسین چودھری نے اپنی تخلیقات کی شکل میں نعتیہ ادب میں اب تک جو اضافے کئے ہیں ان میں سے بیشتر پر جدید اسالیب کی دھنک کے اثرات محسوس ہوتے ہیں۔ انہوں نے خاصی حد تک اپنا ایک اسلوب بنالیا ہَے اور اسی لئے ان کی تحریریں نعت کائنات میں فنی آب و تاب کے حوالے سے کسی نو دریافت شدہ سیّارے کی طرح مرکزِ نگاہ بن جاتی ہیں۔ ریاض حسین چودھری کی نعتیہ شاعری کو ان کے جذبے کی پاکیزگی اور پیش کش کے سلیقے نے وہ شاعرانہ اسلوب عطا کیا ہَے جس کی تفہیم کے لئے میرؔ کے اس مصرعے سے مدد لینی پڑتی ہے۔
عشق بِن یہ ادب نہیں آتا
میرے پیشِ نظر ریاض حسین چودھری صاحب کے تازہ مجموعۂ نعت ’’زم زمِ عشق‘‘ کا مسودہ ہَے جس میںشامل غزل طور لکھی ہوئی بہت سی نعتیہ تخلیقات سے فن کی روشنی اور جذبے کی خوشبو پھیل رہی ہے۔ اس شعری مرقع میں خیال کے مختلف رنگ، اظہار کے نئے زاویے، جذبے کی سچائی کے مناظر بھی دیکھے جاسکتے ہیں اور ایسے تلمیحاتی اشارے بھی جو حوالہ جاتی اسلوب سے الگ ہیں۔
یہاں مَیں ریاض حسین چودھری کے چند اشعار کی قرات سے پیدا ہونے والی معنیاتی چکا چوند کی ایک جھلک دکھانے کی کوشش کرتا ہوں۔ میرے خیال میں یہ اندازِ تفہیم، نعتیہ ادب میں بڑی حد تک غیر متعارف ہے۔
لازمی ہَے آفتابِ نور سے وابستگی
تیرگی دے گی فقط ’’روشن خیالی‘‘ ہاتھ میں
ہمارے عہد کی ظلمت یہی ہَے کہ بعض لوگ دین سے دوری ہی کو ’’روشن خیالی‘‘ کا طرۂ امتیاز سمجھنے لگے ہیں، شاعر نے اس خیال کی تردید کی ہَے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وابستگی کو لازمی قرار دیتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کے لئے استعارۃً ’’آفتابِ نور‘‘ کی ترکیب استعمال کی ہے۔ یہاں استعارے کی تازگی کے ساتھ ساتھ قرآنی تلمیح ’’سِرَاجًا مُّنیرا‘‘ کو بھی ذہن میں رکھیئے، اس طرح مفہوم کی بلندی، مقصد کی نشاندہی اور عقیدے کی سچائی شعر کی صورت میں ایک اکائی میں ڈھل گئی ہَے۔ مزید برآں شعر میں ’’روشن خیالی‘‘ عصری معاشرے میں رائج گمراہ کن اصطلاح کے حوالے سے مذکور ہوئی ہَے لیکن ذرا غور کریں تو شعر کے معنوی پرت اس طرح بھی کھلتے ہیں کہ ’’روشن خیالی‘‘ چونکہ ایک خیالی چیز ہَے اس لئے اس کے توسط سے صرف اندھیرا مل سکتا ہَے جبکہ نور کے حصول کے لئے عالمِ آب و گل آفتاب کا محتاج ہَے۔ درج بالا شعر میں شاعرنے ’’روشنی‘‘ کے حصول کے لئے نورِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب توجہ مبذول کروائی تھی۔ درج ذیل شعر میں کسی استعارے یا تشبیہہ اور امیجری کی مدد کے بغیر ’’برہنہ گفتاری‘‘ کے انداز میں ایک کھلی ہوئی حقیقت کی طرف اشارہ کردیا۔
یہ تو فیضانِ پیمبر ؐ ہَے ازل سے تا ابد
ہاتھ کب آتی ہَے عمرِ مختصر میں روشنی
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیضان ہَے کہ انسان کو اس کی مختصر زندگی میں ’’روشنی‘‘ میسر آگئی … یہ روشنی زندگی کی صورت میں بھی ہوسکتی ہَے کیونکہ عالمِ انسانی کی تخلیق اور انسانوں کو حیات بخشی کا عمل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے صدقے میں شروع ہوا ہَے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی وجہ تخلیقِ کائنات ہیں یہ روشنی، حقیقت آشنائی کی بھی ہوسکتی ہَے، ایمان کی بھی اور دینِ اسلام کے مکمل نظام کی بھی ہوسکتی ہَے۔ یہاں روشنی کے مفاہیم میں جو وسعت ہَے اس کا اندازہ کرنا اور معافی کا تعین کرنا شعر کو محدود کرنے کے مترادف ہوگا… پھر شاعر نے کُھلی حقیقت کے اظہار سے عمر کے اختصار کا ذکر کر کے ایک پیغام بھی دیا ہَے کہ روشنی کے حصول کی کوشش میں جلدی کرو… دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا اس نعتیہ غزل میں یہ مصرع بھی ’’روشنی‘‘ کے مفاہیم کو واضح کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
روشنی دے دی گئی ہَے ہر سوالی ہاتھ میں
اس لئے ایک مرحلے پر شاعر برملا کہتا ہے۔
آدم کی نَسْلِ نو کو شبِ انحراف میں
محسوس ہو رہی ہَے ضرورت حضور ؐ کی
اور اب اسی تناظر میں ایک شعری مرقع ملاحظہ ہو جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت، یکتائی اور رسالت کی لازمانیت کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔
آسمانِ ہدایت پہ لکھّا گیا، حشر تک اب قیادت ہَے سرکار ؐ
کی
گمرہی کے وثیقے جو لکھتی ہے شب دیکھنا سب کے سب رائیگاں جائیں گے
ایک اور شعری پیکر میں معنیاتی وسعتوں کا ادراک کیجئے
روز جاتی ہَے ہوا شہرِ پیمبر ؐ کی طرف
روز کھڑکی میں چراغِ چشمِ تر رکھا کرو
اس شعر کی امیجری پر ذرا غور فرمائیے، شاعر کہنا یہ چاہتا ہَے کہ مَیں ہجرِ طیبہ میں روتا ہی رہتا ہوں۔ لیکن وہ شعری زبان میںاس طرح بات کرتا ہَے کہ منظر visualize ہوجائے۔ محاکاتی تناظر میں دیکھئے! کھڑکی میں شاعر کسی پیغام کے انتظار میں بیٹھا ہَے لیکن جب کوئی پیغام نہیں ملتا تو اس کے آنسو نکل پڑتے ہیں۔ اب وہ خود ترغیبی کے انداز میں یہ کہتا ہَے کہ کوئی بلاوا آئے نہ آئے لیکن تم روزانہ اپنی آنکھوں سے اشکوں کو دھو لیا کرو کیونکہ یہی اشک چراغ بن کر روشنی کریں گے اور طیبہ کی طرف جانے والی ہوا یہ روشنی اپنے ساتھ لے جائے گی (کیونکہ یہ چراغ ہوا سے بجھائے نہ جاسکیں گے)… اِس طرح تمہارے ہجر زدہ دل کی کیفیات بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچ جائیں گی اور تمہارے فراق کا مداوا بھی ہوجائے گا
ایک اور زاویے سے اس شعر پر غور کریں تو اس کا بہت بڑا نعتیہ حوالہ بنتا ہے، حضرت زین العابدین رضی اللہ عنہ نے جو نعت کہی اس کا مطلع ہے۔
ان نلت یا روح الصبا یوما الیٰ ارض الحرم
بلغ سلامی روضۃ فیھا النبی المحترم
’’اے بادِ صبا! اگر تیرا گذر سر زمین حرم تک ہو تو میرا سلام اس روضہ کو پہنچا جس میںنبیٔ محترم تشریف فرما ہیں۔‘‘
یہاں بھی صبا سے پیغام رسانی کے لئے کہا جا رہا ہے اور ظاہر ہَے ہجر کا شکوہ یہاں بھی شعری پیکر میں پوشیدہ ہے… کھڑکی اور شاعر کی بیچارگی کے حوالے سے ایک اور شعری روایت کی طرف دھیان جاتا ہَے۔ سودا نے کہا تھا
اے ساکنانِ کنجِ قفس! صبح کو صبا
سنتی ہی جائے گی سوئے گلزار کچھ کہو!
اس طرح شعری روایت میں ریاض حسین چودھری کے خیال کا سفر، فکر اور اسلوب کے حوالے
سے ایک لامتناہی سفر بن جاتا ہے سودا کنجِ قفس میں قیدیوں سے ہمکلام ہَے تو ریاض حسین
چودھری خود ہی اپنے آپ کو گھر کی چار دیواری میں قید پاکر اسے زنداں سمجھ رہے ہیں اور
کھڑکی کھول کر کسی قاصد کا انتظار کر رہے ہیں جو یہ پیغام لائے کہ نبی e نے انہیں یاد
فرمایا ہَے۔ یہ معنیاتی منظر نامہ امتِ محمدیہ کے اجتماعی لا شعور کی عکاسی کر رہا
ہَے۔ اس طرح شاعر کی ندا ’’حدیثِ دلِ مہجوراں‘‘ کی علامت بن گئی ہے۔
رجائیت سودا کے شعر سے بھی مترشیح ہَے اور ریاض حسین چودھری کے شعر سے بھی ’’کربِ ہجر‘‘
کے باوجود قنوطیت ظاہر نہیں ہوتی۔
بیاضِ نعت کے اوراق الٹو خوشبوؤ آکر
رقم اسوہ پیمبر ؐ کا کتابِ جاوداں میں ہَے
اس شعر میں کتابِ جاوداں ’’قرآنِ کریم‘‘ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کی موجودگی کا تذکرہ ہَے جو ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے قولِ مبارک کی یاد دلاتا ہے۔
اِنَّ خَلَقَ نَبیِّ صَلَّی ﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ الْقُرانُ
’’بے شک نبی ﷺ کے اخلاق قرآن کے مطابق تھے۔‘‘
شعورِ بندگی سرکار ؐ کی چوکھٹ سے ملتا ہے
رضا اللہ کی عشقِ امامِ مرسلاںﷺ میں ہے
یہاں ’’عشق‘‘ سے مراد حُبِّ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وہ معیار ہَے جس میں امتی کے ہر عمل سے ’’اتباعِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘ کے اظہار کے ساتھ ساتھ ’’عشق‘‘ کی پاکیزہ خوشبو بھی محسوس کی جاسکے۔
اس جہانِ رنگ و بو میں ہم نے دیکھا ہَے ریاضؔ
ایک ہی موسم ثنا کا ہَے ازل سے تا ابد
صفتِ تلمیح کے حامل وہ اشعار ہوتے ہیں جن میں کسی قرآنی آیت،حدیثِ مبارک، تاریخی واقعے یا روایت کے خدو خال واضح ہوں لیکن جب یہ اشارے نہ ہوں اور شعر میں ایسا قرینہ ہو کہ قاری کا ذہن از خود کسی تلمیح تک پہنچ جائے تو بھی وہ شعر تلمیحاتی حوالے سے سمجھا جاسکتا ہے لیکن اس قسم کے شعر کی خوبی یہ ہوتی ہَے کہ اس شعر کا مفہوم سمجھنے میں اس قاری کو بھی دقت نہیں ہوتی جو کسی خاص روایت سے آگاہ نہیں ہوتا۔ ذرا دیکھئے درج بالا شعر کی قرات سے سورۂ احزاب کی آیت نمبر 56 کی طرف دھیان جاتا ہَے جس میں کہا گیا ہَے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کے ساتھ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیج رہا ہَے … ساتھ ہی مؤمنوں کو بھی حکم دیا گیا ہَے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جناب میں درود و سلام کے نذرانے پیش کریں … لیکن اس شعر میں شاعر نے قرآنی حوالہ نہیں دیا ہے اس لئے ’’متن‘‘ کھلا ہوا ہے اور قاری اپنی دانست میں اس شعر کے مفاہیم تک جس زاویے سے چاہے پہنچ سکتا ہے۔
دین بھی دنیا بھی ہَے سائل کے خالی ہاتھ میں
روشنی دے دی گئی ہے ہر سوالی ہاتھ میں
یہ شعر پڑھ کر اقبال کے متن کی تجدید کا خیال آتا ہے۔ اقبال نے کہا تھا
از کلیدِ دیں درِ دنیا کشاد
ہمچو او بطنِ امِ گیتی نژاد
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دین کی کنجی سے دنیا کا دروازہ کھولا (اور امت کو بھی یہی ہنر سکھایا) دنیا میں کسی ماں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسے کامل انسان کو جنم نہیں دیا۔‘‘
چند اشعار کے مفاہیم تک پہنچنے کی کوشش کرنے کے بعد مجھے یہ عرض کرنا ہَے کہ تشریحی یا توضیحی انداز کی ان جھلکیوں کی روشنی میں ریاض حسین چودھری کی نعتیہ تخلیقات کا مطالعہ کیا جائے تو ان کے بُنے ہوئے ’’متن‘‘ (Text) کی معنیاتی ثروت مندی کا صحیح اندازہ ہوسکتا ہے۔
دیباچہ، کسی کتاب کے تفصیلی مطالعے اور اس کے نتائج سے مفصل آگاہی دینے کا عمل نہیں ہوسکتا۔ اس لئے چند ایک نکات کی طرف توجہ مبذول کروا کے مَیں کتاب کے قاری سے رخصت چاہوں گا تاکہ وہ اصل ’’متن‘‘ پڑھ کر روحانی بالیدگی اور جذبۂ عشق نبوی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام میں از دیاد کی کیفیتوں کو خود محسوس کرسکے۔
ریاض حسین چودھری کو اس بات پر بجا طور پر فخر ہَے کہ وہ مسلسل نعت کہتے ہیں اور چونکہ ان کا جذبہ بے کنار ہے اس لئے اس جذبۂ صادقہ کے اظہار میں کسی قسم کے اختصار کی بھی ان کے مسلک میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔
یہ سرے سے میرے مسلک میں نہیں شامل ریاضؔ
باب ہو نعتِ نبی ؐ کا اور حرفِ اختصار
اختصار کی گنجایش نہ ہونے کا جواز یہ ہَے کہ شاعر کے گھر میں یہی ایک سامان ہے جس سے علاجِ قلبِ مضطر ہوتا ہَے نیز شاعر کے پاس ایسا قلم دان بھی ہَے جسے سرکار ؐ کی مدحت نگاری سے فرصت نہیں ملتی۔
بیاضِ نعت کے اوراق پر کرنوں کی رم جھم ہے
سکونِ قلبِ مضطر کا بھی ساماں ہَے مرے گھر میں
جسے فرصت نہیں سرکار ؐ کی مدحت نگاری سے
خدا کا شکر ہَے ایسا قلم داں ہے مرے گھر میں
امتِ مسلمہ جس اِدبار، جس زوال اور جس ذلت آمیز تاریخی دور سے گزر رہی ہے اس کا ذکر اکثر شعرا اپنی نعتوں میں کرتے ہیں، کیونکہ کوئی بھی شاعر عصری زندگی سے آنکھیں نہیں چرا سکتا۔ ریاض حسین چودھری کے ہاں بھی غمِ زمانہ کے کرب انگیز لمحات لفظوں میں قید ہیں۔
کسی اخبار کے کالم میں پڑھ کر حال امت کا
ورق پر آج بھی میرے قلم سے خون ٹپکا ہے
ہجر زدہ عاشق کو ہمیشہ انتظار رہتا ہَے کہ اُسے پیغامِ ’’طیبہ رسی‘‘ ملے … ریاض حسین چودھری نے ذرا تعلّی کے انداز میں اپنی رجائیت اور ’’مژدۂ طیبہ رسی‘‘ پانے کا انوکھے انداز سے اظہار کیا ہے۔
ہوائے خلدِ طیبہ نے کہا اے خوشنوا شاعر
مقدر میں ترے اب کے برس بھی چاند لمحے ہیں
چاند لمحے کی ترکیب، نعتیہ ادب میں ایک خوبصورت اضافہ ہَے
اسلوب کی دلکشی، بیان کی ندرت اور جذبے کی سچائی کے انعکاس نے ’’زم زمِ عشق‘‘ کی شاعری
کو وہ خوبی عطا کردی ہَے کہ جب شاعر تعلّی آمیز انداز میں اپنے لہجے کو ’’منفرد‘‘ قرار
دیتا ہَے تو اس پر قاری کو ’’صاد‘‘ کہنا ہی پڑتا ہے۔
ثنا گوئی میں میرا منفرد سا ایک لہجہ ہَے
درِ سرکار ؐ سے رزقِ ثنا ہر روز ملتا ہَے
کچھ اور اشعار ملاحظہ فرمائیے۔
کہہ رہی ہَے آج بھی شہرِ نبی ؐ کی روشنی
تم تلاشِ عظمتِ رفتہ میں بھی نکلا کرو
٭
قرآں میں درج سیرتِ سرکار ؐ ہَے ریاضؔ
قرآں سے مستند تو حوالہ نہیں کوئی
٭
سن لیں، غبارِ شب میں اندھیروں کے قافلے
سب عزتوں سے بڑھ کے ہَے عزت حضور ؐ کی
ریاض حسین چودھری کا ایک شعر تو ایسا ہَے جسے ہر قاری کی لوحِ دل پر نقش ہوجانا چاہیئے تاکہ ہر مسلمان کی نسل میں عشقِ نبوی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کی وراثت دست بدست ’’تا حشر‘‘ تقسیم ہوتی رہے
مَیں نے سامانِ وراثت میں ادب سے بچّو!
اپنی دستارِ غلامی کو سجا کر رکھّا
میرا خیال ہَے کہ مَیں نے شاعر کے بیان کی جمالیاتی اور معنیاتی خوبیاں ظاہر کرنے کے لئے اس کے شعری نگار خانے سے چند مرقعوں کی طرف اشارے کر کے اپنے اس دعوے کی دلیل فراہم کردی ہَے کہ ریاض حسین چودھری کاجو کچھ تنقیدی نظریہ پیش کیا تھا اس کے اثرات ان کے کلام میں بھی مصّور ہیں یعنی
’’جدید نعت قدیم نعت سے کئی حوالوں سے مختلف ہے۔ جدید نعت میں سوچ اور اظہار کے بھی نئے آفاق مسخر ہو رہے ہیں۔‘‘
مَیں نے شاعر کے کلام کی کلیت (wholeness) کو پیشِ نظر رکھا ہَے اس لئے واضح کرتا چلوں کہ زود نویسی اور بسیار نگاری کے تحت کلام میں مضامین کی تکرار کا جو عنصر در آتا ہَے، اس کے نشانات ریاض حسین چودھری صاحب کے کلام میں بھی محسوس کئے جاسکتے ہیں لیکن Gestalt psychology کی اصطلاح holism کے تحت مجموعی تاثر ہی کو کلام کا طرۂ امتیاز قرار دیا جائے گا… اور ان کا کلام بڑا متاثر کن ہَے بلکہ اپنے لہجے کی انفرادیت کے حوالے سے ’’ایک پھول کا مضمون سو رنگ سے باندھنے‘‘ کا جواز بھی پیش کر رہا ہَے … پھر یہ بھی ہَے کہ شعوری طور پر کس صنفِ سخن کی ادبی پہچان قائم کرنے کے لئے جو شاعری کی جاتی ہَے اس میں بیان کے زیادہ سے زیادہ نمونے پیش کرنے کا جذبہ بھی کار فرما ہوتا ہے۔ اس زاویے سے دیکھیں تو کلام میں تکرار و توارد کا عمل بھی بھلا لگتا ہَے۔
’’زم زمِ عشق‘‘ کی اشاعت پر مَیں ریاض حسین چودھری کو دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
کراچی ڈاکٹر عزیز احسن
5 ستمبر 2013ء