خلعت اسے عطا ہو درود و سلام کی- زم زم عشق (2015)
خِلْعَت اسے عطا ہو درود و سلام کی
ہچکی اگر یہی ہَے تنفس کی آخری
اُن ؐ کا درِ عطا کُھلا رہتا ہَے رات دن
جھولی کبھی فقیر کی خالی نہیں رہی
کب سے ہیں خوشبوئیں مرے آنگن کی رَقْص میں
نعتِ نبی ؐ کی، وَجْد میں رہتی ہَے، چاندنی
خلدِ نبی ؐ کی ٹھنڈی ہوا سے ہوں ہمکلام
پیشِ نظر ہَے سرورِ کونین ؐ کی گلی
زادِ سفر نصیب ہو بارِ دگر حضور ؐ
بجھتی نہیں ہَے چشمِ تمنا کی تشنگی
ہر سال چشمِ تر مری نعتِ نبی ؐ لکھے
ہر سال ہو نصیب مدینے کی حاضری
مکّے کے آسمان کی جانب نظر کرے
گردابِ ابتلائے عجم کا یہ آدمی
صدقے میں اُن ؐ کے، روک دے طوفاں مرے خدا
بارش ہَے تیز کشتیاں میری ہیں کاغذی
ہر ذرہ ہمصفیر ہَے ملکِ حجاز کا
اہلِ عرب کہاں مجھے لگتے ہیں اجنبی
اُن ؐ کے عدو سے میری عداوت ازل سے ہے
اُن ؐ کے ہر اک غلام سے میری ہَے دوستی
اتریں گے چاند اور ستارے بصد ادب
بادِ خنک چراغ جلائے گی آج بھی
اُس پیکرِ جمال کی رحمت ہی کے طفیل
ہوتے رہے عذاب کے لمحات ملتوی
اپنی بقا کی دائمی تدبیر چاہییٔ
آق ؐ کے نقشِ پا سے لپٹ جائے شاعری
اسمِ نبی ؐ کی خُلدِ محبت میں گم ہوں مَیں
میرے قلم سے پھوٹتی رہتی ہَے روشنی
خوشبوئے اسمِ پاک فضا میں ہَے پرفشاں
نطق و بیاں کے پاس کہاں ایسی دلکشی
آنگن میں مستقل تری رحمت کا ہَے قیام
ہر اضطراب میرے بدن کا ہَے عارضی
امت کھڑی ہَے ظلمتِ شب کے حصار میں
اس کو ملے حضور ؐ کے قدموں کی روشنی
رہتا ہَے میرے ساتھ تصّوُر حضور ؐ کا
ہرگز نہیں ریاضؔ مدینے میں اجنبی