نعت گوئی ہے ردائے رحمتِ پروردگار- زم زم عشق (2015)
نعت گوئی ہے ردائے رحمتِ پروردگار
حاضرِ دربار ہے لوح و قلم کا انکسار
یا خدا! لکھنے لگا ہوں نعتِ ختم المرسلیں ؐ
خوشبوؤں کا قافلہ تو میری تختی پر اتار
منتشر ہیں میری سوچیں اے خدائے مہرباں
کر مرے اوہام پر اپنی حقیقت آشکار
کیف میں ڈوبے ہوئے دیوار و در کا بھی سلام
خیمہ زن رہنے لگی ہے میرے آنگن میں بہار
وَجْد میں آئی ہوئی ہیں خوشبوئیں، محوِ ثنا
ہے مری کشتِ ادب کے پھول پتوں پر نکھار
مدحتِ خیر البشر ؐ کی ہوں کروڑوں رم جھمیں
ہر برہنہ شاخ پر اترے شگوفوں کی قطار
آپ ؐ جیسا دوسرا کوئی نہیں‘ کوئی نہیں
آپ ؐ، صنّاعِ ازل کے، یا نبی ؐ ہیں شاہکار
ہر زمانے کے ہے سر پر آپ ؐ کا دستِ کرم
بعدِ محشر بھی رہے گا آپ ؐ ہی کا اقتدار
مجھ سے دیوانے کا سرمایہ ہیں مدحت کے چراغ
ہے بیاضِ نعت کے سر پر کلاہِ افتخار
تا ابد کھلتے رہیں مدحت نگاری کے گلاب
ہر گھڑی گرتی رہے حَبِّ نبی ؐ کی آبشار
اپنی قسمت کی بلائیں لے کے اے میرے قلم!
آخرِ شب توْ مصّلے پر کئی سجدے گذار
وہ مدینے کا سفر تھا یا تھی ساون کی جھڑی
آج بھی اشکِ رواں کا ٹوٹ جائے گا حصار
پھر مدینے کا کوئی قاصد کرے گھر میں قیام
ایک مدت سے ہَے بچّوں کو بھی اس کا انتظار
میَں وفورِ شوق سے مر جاؤں گا‘ آقا حضور ؐ!
خواب میں دیکھا ہیَ میَں نے شہرِ طیبہ کا غبار
ما سوا اﷲ کے، اُن ؐ سے بڑا کوئی نہیں
آپ ؐ پر میرے اب و جد ہی نہیں، مَیں بھی نثار
اس سے پہلے موت آجائے، اگر میرے خدا!
زندگی مانگوں کسی جھوٹے خدا سے مستعار
اَن گنت محرومیوں کی راکھ ہَے چاروں طرف
زخم، امت کے بدن پر، یا نبی ؐ، ہیں بے شمار
دے رہے ہیں پھر دہائی کوچہ و بازار میں
وادیٔ کشمیر میں جلتے ہوئے، آق ؐ، چنار
یا نبی ؐ، آدم کی نسلوں کو ملے ابرِ سکوں
لمحہ لمحہ بڑھ رہا ہے ذہنِ انساں کا فشار
کربلائیں ہر طرف برپا ہوئی ہیں، یا نبی ؐ
مرثیہ گو بن گیا ہے آپ ؐ کا مدحت نگار
کتنی صدیوں سے ہیں ہم قعرِ مذلّت میں اسیر
اٹھ گیا ہے اپنے ہونے کا بھی، آق ؐ، اعتبار
یہ فقیہانِ حرم نے آج تک سوچا نہیں
کب تلک اغیار کے ٹکڑوں پہ ہوگا انحصار
حوصلہ مندی کے اتریں آسمانوں سے سحاب
امت سرکش ہوئی ہے یا نبی ؐ، بے اختیار
کس قدر الجھا ہوا ہوں مَیں طلسمِ ذات میں
کھول دیں گرہیں مرے اوہام کی، آق ؐ، ہزار
آپ ؐ ہی چارہ کریں کربِ مسلسل کا، حضور ؐ
امتِ ناداں میں حد سے بڑھ گیا ہے انتشار
یہ سرے سے میرے مسلک میں نہیں شامل، ریاضؔ
باب ہو نعتِ نبی ؐ کا، اور حرفِ اختصار
ڈوبنے کو جب ہو میری عمر کی کشتی ریاضؔ
عشقِ سرکارِ دو عالم ؐ کا ہو بحرِ بے کنار