با وضو ہوکر مضامیں نعت کے سوچا کرو- زم زم عشق (2015)
باوضو ہو کر مضامیں نعت کے سوچا کرو
دل کی تختی پر ادب سے پھول ہی لکھّا کرو
التجائیں اپنے ہونٹوں پر سجا لینے کے بعد
آخرِ شب تم تہجد کے لئے اٹھّا کرو
شامِ تنہائی میں جب سایہ بھی ہو جائے جدا
دیدہ و دل کی کتابِ آرزو کھولا کرو
جب درودوں کے پرندے لب پہ آبیٹھا کریں
گھر کی دیوارو! ادب سے وَجْد میں آیا کرو
روز جاتی ہے ہوا شہرِ پیمبر ؐ کی طرف
روز کھڑکی میں چراغِ چشمِ تر رکھّا کرو
میرے ہر آنسو میں عکسِ روضئہ سرکار ؐ ہے
احتراماً خامشی سے میرے دل دھڑکا کرو
وقتِ رخصت کتنا مشکل تھا مدینہ چھوڑنا
زائرِ طیبہ سے تنہائی میں یہ پوچھا کرو
واپسی کا اذن جب بھی آپ ؐ دیں تجھ کو صبا!
میرے زخموں کے لئے آبِ شفا مانگا کرو
کہہ رہی ہے لب کُشا شہرِ نبی ؐ کی روشنی
تم تلاشِ عظمتِ ماضی میں بھی نکلا کرو
زندگی میں بھول بیٹھو جب پتہ اپنا ریاضؔ
خود کو تم سرکار ؐ کے قدموں ہی میں ڈھونڈا کرو
زم زمِ عشقِ پیمبر ؐ کا تقاضا ہے ریاضؔ
آنکھ بن کر آپ ؐ کی دہلیز پر برسا کرو
اس برس بھی رتجگے حمد و ثنا کے ہیں ریاضؔ
تم قلم کے ساتھ اپنے ہاتھ بھی چوما کرو