اس کڑی دھوپ میں مَیں ترسےؐ نام کی سبز چھاؤں کو پرچم بناتا ہوں- زر معتبر (1995)
اِس کڑی دُھوپ میں مَیں تِرےؐ نام کی سبز چھاؤں کو پرچم
بناتا چلوں
یانبیؐ، یہ سفر میرا جاری رہے، طشت عرضِ ہنر کا سجاتا چلوں
میں کتابِ دُعا میں یہ لکھتا رہوں، میری پہچان تیرےؐ حوالے
سے ہو
نقش جتنے بھی ہیں رنگ کے، نسل کے ثبت چہرے پہ ان کو مٹاتا چلوں
حشر تک یا خدا، کاش ایسا بھی ہو میں حریمِ غزل کے چمن زار
میں
پھول حُبِّ نبیؐ کے کھلاتا رہوں، فَصل عشقِ نبیؐ کی اُگاتا چلوں
اِک نہ اِک دن پکڑ کر مرا ہاتھ بھی یہ صبا مجھ کو طیبہ میں
لے جائے گی
رہگذارِ نبیؐ کے مضافات میں آرزو کے گھروندے بناتا چلوں
یا محمدؐ اجازت اگر ہو مجھے تو رقم میں کروں ظلم کی داستان
چشمِ تر میں جو محفوظ ہیں اب تلک، آنسوؤں کے وہ موتی گراتا چلوں
کِرچی کِرچی ہوا ہے وجودِ سحر، اپنے خوں میں نہائی ہوئی
ہے نظر
لمحہ لمحہ گزرتی ہوئی رات میں کیوں نہ شمعِ محبت جلاتا چلوں
زخم اپنے دکھاتا چلا ہوں مگر بوجھ اتنا ندامت کا ہے رُوح
پر
بارگاہِ نبیؐ میں پہنچ کر تو میں دونوں ہاتھوں سے منہ کو چھپاتا چلوں
ہر طرف خیمہ گاہوں میں آہ و فغاں، دشتِ غربت میںنوحہ کناں
بیبیاں
تھام کر روضۂ پاک کی جالیاں، میں کہانی دُکھوں کی سُناتا چلوں
یہ بھی کہتا چلوں سرورِ دو جہاں تیریؐ اُمّت سرِ بزم ہے
بے نشاں
آگ ہی آگ ہے اور تِریؐ بستیاں راکھ کس کس کی جھک کر اٹھاتا چلوں
پھر گرفتِ قضا میں ہیں دانائیاں، چھین لے مجھ سے قُدرت یہ
بینائیاں
جس قدر بھی ہیں دامن میں رسوائیاں سیلِ اشکِ رواں میں بہاتا چلوں
ضبط کی شرط ناکام ہوتی رہے یہ نوائے قلم عام ہوتی رہے
صبح ہوتی رہے شام ہوتی رہے لوگ روتے چلیں میں رلاتا چلوں
شاخ دَر شاخ پھر پھول مُر جھا گئے، عکس نامہرباں شب کے لہرا
گئے
میں ریاضؔ آج بھی صحنِ جذبات میں جوت نعتِ نبیؐ کی جگاتا چلوں