گھر کے دیوار و در مجھ سے کہنے لگے، ہم بھی بہرِ سلامی وہاں جائیں گے- زم زم عشق (2015)
گھر کے دیوار و در مجھ سے کہنے لگے، ہم بھی بہرِ سلامی وہاں
جائیں گے
ہمسفر سب ہمارے رہیں مطمئن، اُن ؐ کے در کے سوا ہم کہاں جائیں گے
سجدے کرتے ہوئے وادیٔ عشق میں، یہ ہوائیں ہی کیا، یہ فضائیں
ہی کیا
یہ گھٹائیں ہی کیا، فاختائیں ہی کیا، شہرِ طیبہ میں سات آسماں جائیں گے
پھول، جگنو، ستارے، سحر، کہکشاں، خوشبوئیں، بلبلیں، روشنی،
تتلیاں
ساتھ میرے مدینے کی گلیوں میں بھی، دیکھنا یہ مرے مہرباں جائیں گے
اُن ؐ کی راہوں میں پلکیں بچھائے ہوئے، لب درودوں کا پرچم
اٹھائے ہوئے
آنسوؤں کے دیے سب جلائے ہوئے، چشمِ تر کے کئی کارواں جائیں گے
زخم کتنے بدن پر بکھرتے رہے، کتنے موسم دکھوں کے گذرتے رہے
عصرِ نو کی نئی کربلا میں رقم، ہم سناتے ہوئے داستاں جائیں گے
آسمانِ ہدایت پہ لکھّا گیا، حشر تک اب قیادت ہے سرکار ؐ کی
گمرہی کے وثیقے جو لکھتی ہے شب، دیکھنا ، سب کے سب رائیگاں جائیں گے
یہ قلم میرا افراطِ جذبات میں، چوم لے گا نقوشِ قدم آپ ؐ
کے
حشر میں نعت پر نعت پڑھتے ہوئے اُن ؐ کے قدموں میں نطق و بیاں جائیں گے
خیمۂ عافیت میں قیامت کے دن، زخم موجِ غضب کے سجائے ہوئے
جن پہ اسمِ محمد ؐ ہے لکھّا ہوا، کشتیوں کے وہی بادباں جائیں گے
دھڑکنوں کے ہے لب پہ بھی صلِّ علیٰ، یا نبی ؐ، یا نبی ؐ،
یا نبی ؐ، مرحبا
رقص کرتے ہوئے میرے حرفِ ادب، سوئے طیبہ، دلِ ناتواں جائیں گے
امنِ عالم کی، آق ؐ، ضمانت ملے، امتِ بے نوا کو امامت ملے
کب تلک آندھیوں کی ہتھیلی پہ زخمی پرندوں کے یہ آشیاں جائیں گے
بام و در پہ چراغاں کرے گی ہوا، جھوم اٹھے گی شہرِ قلم کی
فضا
پھر سجیں گی وہیں نعت کی محفلیں، قافلے عاشقوں کے جہاں جائیں گے
پیش کرنے کو دامن میں کچھ بھی نہیں، بس پسینے میں ڈوبی ہوئی
ہے جبیں
ہم ریاضؔ اپنے آق ؐ کے دربار میں، لے کے اشکوں کا سیلِ رواں جائیں گے