ہمسفر، حرفِ ادب کی، گردشِ افلاک ہَے- زم زم عشق (2015)
ہمسفر، حرفِ ادب کی، گردشِ افلاک ہے
مدحتِ خیرالبشر ؐ پر عِل م کی پوشاک ہے
خوش نصیبی ہیَ تمناؤں کی بستی میں مقیم
ایک ہی زندہ تمنائے شہِ لولاک ؐ ہے
کاش لکھ دے کاتبِ تقدیر میرے ہاتھ پر
شہرِ طیبہ کی گلی کا توْ خس و خاشاک ہے
میَں بیاضِ نعت لے کر حاضرِ دربار ہوں
راز دانِ آخرِ شب دیدئہ نمناک ہَے
اس لئے آنگن میں ہَے روشن ستاروں کا ہجوم
میرے دامن میں مرے آق ؐ کے در کی خاک ہے
آپ ؐ کی، مجھ پر عطاؤں کا نہیں کوئی حساب
میرا دامن ہی ازل سے دامنِ صد چاک ہے
شہر یاروں کو کہاں خاطر میں لاتا ہوں کبھی
میرا سرمایہ فقط حْبِّ رسولِ پاک ہے
چھین لیتا ہے ضعیفوں سے نبی جی ؐ! روشنی
زر کے جنگل کا درندہ کس قدر چالاک ہے
بوالہوس مَحش ر کے دن چہرہ چھپاتے ہیں، ریاضؔ
عشق کے اپنے تصرّف میں زرِ اَملاک ہے