ذکر مَیں کرنے چلا ہوں سیّدِ ابرارؐ کا- زم زم عشق (2015)
ذکر مَیں کرنے چلا ہوں سیدِّابرار ؐ کا
ایک جھرمٹ ہے لبوں پر سرمدی انوار کا
آپ ؐ دنیائے رسالت میں ہیں اپنی ہی نظیر
کب کوئی نعم البدل ہَے آپ ؐ کے کردار کا
گرتے پڑتے آہی پہنچا ہوں مدینے میں حضور ؐ
اپنے شاعر کو کسی دن اذن ہو دیدار کا
عالمیں کے واسطے رحمت وجودِ مصطفیٰ ؐ
بعدِ محشر بھی رواں سکہّ رہا سرکار ؐ کا
کیا عظیم المرتبت اصحابؓ ہیں سب آپ ؐ کے
کیا حسیں منظر ہے آق ؐ آپ ؐ کے دربار کا
سانس بھی لیتا ہوں میَں صلِّ علیٰ کہتے ہوئے
کیا مقدر سا مقدر ہے زرِ گفتار کا
وقت نے رم جھم اٹھا رکھّی ہے اُن ؐ کے ذکر کی
راستہ روکا ہے کس نے وقت کی رفتار کا
سنگِ اسود کو ادب سے چوم کر آتی ہے یہ
اے خدا رکھنا بھرم اِس عجز کی دستار کا
زائرِ طیبہ کی آنکھوں میں وہ گلیاں دیکھ کر
حال ہوتا ہے عجب میرے دلِ بیمار کا
میرے زخموں سے بنی ہیں سرخیاں، یا سیدی ؐ
آنسو آنسو ہر ورق ہے آج کے اخبار کا
خشک سالی حد سے بڑھ جاتی ہے تو چاروں طرف
ٹوٹ کر دھوون برستا ہے مری سرکار ؐ کا
شکر جتنا بھی کروں تیرا وہ کم ہَے اے خدا
ہر طرف شہرہ ہَے میری گرمیٔ بازار کا
کیا مقدر کے اندھیروں میں رہے گی حشر تک
روشنی سے بھر دے آنگن دخترِ نادار کا
خلدِ طیبہ سے اٹھا کر رات خوشبو کا قلم
میَں نے لکھّا ہَے وثیقہ صبح کے آثار کا
یہ خدا کے فضل و رحمت کی ہے ایک بیّن دلیل
آج بھی سورج ہے رخشندہ مرے افکار کا
درج آدابِ غلامی ہیں کتابِ عشق میں
اک سمندر ہے رواں میرے لبِ اِظہار کا
آسمانوں پر خدا نے خود بلایا آپ ؐ کو
بول بالا ہے فلک پر احمدِ مختار ؐ کا
قافلہ جس پیڑ کی چھاؤں میں ٹھہرا ہے ریاضؔ
سبز گہرا رنگ ہے اُس کی گھنی چھتنار کا