لکھ رہا ہوں مَیں کتابِ عشق کا بابِ ثنا- زم زم عشق (2015)

لکھ رہا ہوں میَں کتابِ عشق کا بابِ ثنا
یا نبی ؐ، مقبول ہوں میرے حروفِ التجا

سیدی ؐ یا مرشدی ؐ، ابرِ کرم، ابرِ کرم
یا محمد ؐ مصطفیٰ ؐ، خیرالبشر ؐ، خیرالوریٰ

پیکرِ لطف و کرم ہیں، آپ ؐ ہی میرِ امم ؐ
آپ ؐ رحمت کا سمندر، آپ ؐ محبوبِ ؐ خدا

گنبدِ خضرا کے دامن میں رہے اڑتا خیال
آ رہی ہَے اُن ؐ کی گلیوں سے مجھے ٹھنڈی ہوا

آپ ؐ کے نقشِ قدم کون و مکاں کی آبرو
آپ ؐ کے انفاس سے معمور ہَے غارِ حرا

آ، ہوائے شہرِ طیبہ میرے آنگن میں اتر
میرے ہاتھوں پر چراغِ دیدئہ پرنم جلا

قافلہ شہرِ پیمبر ؐ کی طرف جانے کو ہَے
ساتھ میرے ہو لئے ہیں اب کے بھی ارض و سما

میَں بچھا دیتا ہوں گلیوں میں ہزاروں آئنے
چوم کر آتی ہے جب آق ؐ کی چوکھٹ کو ہوا

میَں کسی جھوٹی قیادت کا مقلد کیوں بنوں؟
آپ ؐ ہی ہیں میرے ہادی، آپ ؐ ہی ہیں رہنما

میَں تو ہوں بچپن سے ہی فالج زدہ، آقا حضور ؐ
عمر کے اس آخری حصّے میں دیں مجھ کو ردا

رات بھر گجرے درودوں کے بناتا ہوں حضور ؐ
پھول رکھ جاتی ہے ہونٹوں پر مرے بادِ صبا

حضرتِ حساّنؓ کے روشن ہیں آثارِ قلم
دستگیری میری فرماتی رہے کلکِ رضاؒ

ہر اذاں میں آپ ؐ کے اسمِ گرامی کی بہار
سنتا رہتا ہوں مَیں کلیوں کے چٹکنے کی صدا

سوچتا رہتا ہوں سیرت آپ ؐ کی پڑھنے کے بعد
آدمی زر کی ہوَس میں کس لئے ہے مبتلا

اس سے بڑھ کر اور کیا اعزاز ہَے میرے لئے
عمر بھر میَں خوشبوئے ذکرِ پیمبر ؐ میں رہا

چند لمحوں کے لئے آنسو مرے ہاتھوں پہ رکھ
چشمِ تر! مجھ کو مناظر خلدِ طیبہ کے دکھا

مجھ مریضِ عشق پر رہنے لگی زخموں کی شال
روشنی، قدموں کی لے آئے کبھی خاکِ شفا

توْ نے دیکھے ہوں گے واں بچّے کجھوریں بانٹتے
حال اُن ؐ کا زائرِ طیبہ مجھے آکر بتا

کھڑکیاں کھْلنے لگی ہیں رحمتِ سرکار ؐ کی
آج بھی سر پیٹ لیں، بستی میں سب جھوٹے خدا

کیا مقدر ہَے غلامانِ نبی ؐ کا ہمسفر!
حاضری کی التجا کی تو طلب فرما لیا

میرے مشکیزوں میں پانی کا نہیں قطرہ حضور ؐ
آپ ؐ کی چوکھٹ سے اٹھّے آج بھی کالی گھٹا

جانتا ہوں آپ ؐ خالی ہاتھ لوٹاتے نہیں
ہوں بھکاری کو بہت سے بھیک میں سکّے عطا

اے مدینے کے مسافر ہو مبارک حاضری
میرے احوالِ پریشاں میرے آق ؐ کو بتا

یہ بھی کہہ دے کسمپرسی کے ہَے عالم میں ریاضؔ
اک نظر رحمت کی ہو اے پیکرِ جود و سخا