سایہ گستر مِری ہستی پہ ہما سا ہو گا- زر معتبر (1995)
سایہ گستر مری ہستی پہ ہما سا ہو گا
میرا ہر موئے بدن حرفِ دُعا سا ہو گا
ذکر جب اُس گلِ رعنا کا چھڑے گا شب کو
ایک گلشن مرے ہونٹوں پہ کِھلا سا ہو گا
لب پہ لکھ دے گی ہوا اسمِ مُحمدؐ جب بھی
دِل مرا شام کے آنگن میں بجھا سا ہو گا
رتجگے مَیں بھی مناؤں گا شبِ ہجراں میں
رنگ اشکوں کا مدینے کی گھٹا سا ہو گا
شہرِ جذبات میں جاگی ہے درودوں کی دھنک
دستِ شاعر میں قلم بادِ صبا سا ہو گا
آج پھر سلکِ محبت میں پرولوں آنکھیں
ورنہ سانسوں کے تسلسل میں خلا سا ہو گا
میرا وجدان مجھے روز یہ دیتا ہے نوید
رُو بُرو ساقیٔ کوثر کے بھی پیاسا ہو گا
جب میں پہنچوں گا مدینے کے گلی کوچوں میں
ایک عالم مرا پہلے سے شناسا ہو گا
جب نظر گنبدِ خضرا پہ پڑے گی میری
دل مرا پیکرِ خاکی سے جدا سا ہو گا
اذن جب دیں گے حضوری کا تو دیوانہ ریاضؔ
دونوں ہاتھوں میں لیے دید کا کاسا ہو گا