عطاؤں کی عطاؤں پر گھڑی ہے- زم زم عشق (2015)
عطاؤں کی عطاؤں پر، گھڑی ہَے
مری جھولی دعاؤں سے بھری ہے
مدینے کی بہارِ جادواں میں
گلی ہر نور و نکہت کی گلی ہے
نہیں ہَے بادباں کوئی اگرچہ
مگر کشتی کنارے سے لگی ہے
جوارِ گنبدِ خضرا میں ہوں میَں
نظر میں روشنی ہی روشنی ہے
مواجھے میں ہیں قسمت کے ستارے
سنہری جالیوں کی دلکشی ہے
کھڑے ہیں خوشبوؤں کے قافلے بھی
مقدر کا سکندر آدمی ہے
فرشتوں کی قطاریں آرہی ہیں
چراغوں کی یہاں بارش ہوئی ہے
نہیں تھمتی مرے اشکوں کی رم جھم
یہی شاید درودِ آخری ہے
حضوری کا کوئی لمحہ عطا ہو
غلامِ بے نوا کی حاضری ہے
کرم ہوتا رہا ہَے مجھ پہ دائم
کہاں بارش پسِ مثرگاں رکی ہے
یہ ہَے اک معجزہ زندہ نبی ؐ کا
مری شاخِ ثنا اب تک ہری ہے
نہیں رکتے مری آنکھوں میں آنسو
درِ سرکار ؐ سے اب واپسی ہے
مجھے شامِ حوادث کیا ڈرائے
مرے ہمراہ رحمت آپ ؐ کی ہے
چراغِ نعت ہَے روشن ازل سے
کہاں غربت کی گھر میں تیرگی ہے
درودوں کی طلب رہتی ہَے مجھ کو
مرے ہونٹوں کی کیا تشنہ لبی ہے
سدا رکھیّں مجھے ان رتجگوں میں
ریاضِ خوشنوا بھی ملتجی ہے