ہر نقشِ قدم ہَے مرے اشکوں کے گہر میں- زم زم عشق (2015)
ہر نقشِ قدم ہَے مرے اشکوں کے گہر میں
ہر وقت میَں رہتا ہوں مدینے کے سفر میں
خورشیدِ قلم روز نکلتا ہَے ورق پر
ہے تابِ خداداد مرے دستِ ہنر میں
عشاق کے اشکوں سے ہیں مرطوب ہوائیں
اترے ہیں کئی رنگ بھی دامانِ سحر میں
ہر نقشِ قدم چاند ستاروں کا ہَے ہمسر
طیبہ کی طرف جاتی ہوئی راہ گذر میں
اِفطار کو طیبہ میں کجھوریں جو ملی تھیں
سوغات وہی ہَے مرے سامانِ سفر میں
آنکھوں سے برستے ہوئے اشکوں نے ازل سے
میلہ سا لگا رکھّا ہے اس شہرِ ہنر میں
ہر لمحہ بجا لاتا ہَے آدابِ غلامی
چلتی ہَے درودوں کی پوَن اُن ؐ کے نگر میں
طیبہ کی ہواؤں کو یہ دیتا ہے سلامی
رہتے ہیں پرندے بھی اسی بوڑھے شجر میں
ہر سَم ت گلِ تازہ کا ہَے رَق صِ مسلسل
خوشبو کے کٹورے ہیں غلاموں کی نظر میں
ہونٹوں پہ درودوں کی سدا رہتی ہَے خوشبو
سو پھول کِھلے رہتے ہیں لفظوں کے نگر میں
اخبار کا اخبار چراغوں سے بھرا ہَے
انوار ہی انوار ہیں طیبہ کی خبر میں
انگلی کے اشارے سے ہوا تھا کبھی دو نیم
اک گہرا نشاں دِکھتا ہَے رخسارِ قمر میں