مِرے نطق کے قفل کھولے ہیں تُو نے مجھے اذن اپنی ثنا کا دیا ہے- زر معتبر (1995)
مِرے نطق کے قفل کھولے ہیں تُوؐ نے مجھے اذن اپنی ثنا کا
دیا ہے
مِرے زنگ آلود افکار لے کر، مجھے تُوؐ نے ہی حرفِ تازہ دیا ہے
مجھے روشنی کا صحیفہ ملا ہے تِرےؐ گھر کے نکھرے ہوئے آسماں
سے
بُجھی ساعتوں کو چراغِ تمنّا کی کرنوں کا تو نے اثاثہ دیا ہے
تِرؐا نام طاقِ دُعا میں ہے روشن، ازل سے ابد تک یہ روشن
رہے گا
کہ تو نے رسولِ خدا ہر صدی ہر زمانے کے انساں کو چہرہ دیا ہے
حرا کی طرف جانے والی گذر گاہ پر بیٹھ کر میں یہی سوچتا
ہوں
یہ کس کے نقوشِ قدم نے کڑی دھوپ میں آسمانوں کو سایہ دیا ہے
مجھے ایک چہرہ تِراؐ ہی نظر آرہا ہے زمیں پر، فلک پر اُفق
پر
مِری کور آنکھوں کو میرے خدا نے سرِ بزم اذنِ نظارا دیا ہے
جسے کوئی نسبت نہیں تیرےؐ در سے اُسے کیسے سُورج میں تسلیم
کر لوں
وہی معتبر ہے حوالہ سحر کا تِرےؐ پاؤں کو جس نے بوسہ دیا ہے
یہ تشکیک کے اژدہے میرے خوں کی حرارت پہ پلتے رہیں، غیر
ممکن
ہمیشہ ہی تیرےؐ تصور نے شہرِ اماں کی فصیلوں پہ پہرہ دیا ہے
بڑی تلخ اپنی حکایت ہے آقاؐ بیاں کے لیے لفظ ملتے نہیں ہیں
شب و روز کی ناروا اُلجھنوں نے مجھے غیر مانوس لہجہ دیا ہے
ریاض آج پھر سرمدی ساعتوں نے لبوں پر بنائے ہیں عکسِ تمنّا
ریاضؔ آج پھر ذکرِ خیر البشرؐ نے مِرے دامنِ دل کو مہکا دیا ہے