در و دیوار پر تحریر ہے میرے قلمداں کی- زم زم عشق (2015)
در و دیوار پر تحریر ہَے میرے قلمداں کی
کہانی مختصر ہَے، یا نبی ؐ، عمرِ پریشاں کی
اضافہ ہوتا رہتا ہَے قلم کی چاند راتوں میں
نرالی شان ہَے نعتِ پیمبر ؐ کے دبستاں کی
بسیرا میرے ہونٹوں پر ہَے میری التجاؤں کا
مَیں لے کر نذر آیا ہوں مدینے میں دل و جاں کی
مدینے کے سفر میں ہر قدم پر پھول کِھلتے ہیں
محبت مَیں نے پائی ہَے رہِ خوشبو بداماں کی
جنابِ سیّدِ سادات ؐ کے صدقے میں امشب بھی
خدائے مہرباں نے میری ہر مشکل ہَے آساں کی
بیاباں میں انا اپنی سپردِ خاک مت کرنا
خوشامد نعت گو کرتے نہیں ہیں مِیر و سلطاں کی
ہزاروں مغفرت کے پھول تیری قبر پر برسیں
لحد میں روشنی اترے مدینے کے شبستاں کی
پرندے بھی نظر آتے نہیں شاخِ تمنا پر
بہت بگڑی ہوئی صورت ہَے اب صحنِ گلستاں کی
کئی خانوں میں بٹتی جا رہی ہے اُمّتِ سرکش
کوئی پہچان ہی باقی نہیں، آق ؐ، مسلماں کی
لہو بکھرا ہوا ہَے ریگِ صحرا میں غلاموں کا
بیاں روداد کیا ہو، یا نبی ؐ، شامِ غریباں کی
اٹھا لاؤں میں اپنے زخم، آق ؐ، شہر طیبہ میں
اِدھر تو اڑ رہی ہیں دھجیاں میرے گریباں کی
عجب سی بے بسی ہَے، سیّدی ؐ یا مرشدی ؐ، آق ؐ
ریاضؔ ابنِ غلام ابنِ غلام ابنِ غلاماں کی