کھِلے میرے لبوں پر پھول پھر اسمِ گرامی کا- خلد سخن (2009)
کھِلے میرے لبوں پر پھول پھر اسمِ گرامی کا
ہوائے خلدِ طیبہ سے شرف ہو ہمکلامی کا
مجھے پہچان لیں گے ہمسفر روزِ جزا آخر
برہنہ سر پہ ہو گا تاج آقاؐ کی غلامی کا
الٰہی! اس صدی کا نعت گو ہونے کی عزت دے
مجھے صدقہ ملے سرکارؐ کی خیرالانامی کا
ملے اب کے برس اذنِ حضوری یارسول اللہ
بھروسہ کیا کرے کوئی بھلا عمرِ دوامی کا
کبھی حسّانؓ کے مرقد پہ بھی بادِ صبا لے چل
ملے اسلوبِ مدحت قدسیؒ و سعدیؒ و جامیؒ کا
لپٹ جائے گا قدموں سے بوقتِ عدل دیوانہ
وہ منظر دیکھنا تم بھی سرِ محشر سلامی کا
مرے آنگن میں بھی اترے سحابِ بخشش و رحمت
مُداوا ہو حضور آقاؐ ازل کی تشنہ کامی کا
غذائے شہرِ ہجراں بال و پر میرے بنیں کب تک
مجھے اعزاز ہو حاصل مدینے کے مقامی کا
سمٹ آؤں گا آنکھوں میں وفورِ شوق سے ہمدم
مَیں ماتھا چوم لوں گا اپنے آقاؐ کے پیامی کا
ریاضِؔ بے نوا کی ٹھن گئی ہے شہریاروں سے
بھرم سرکارؐ رہ جائے کسی مجھ سے بھی عامی کا