آنے والے لمحوں کی خوشبو- زر معتبر (1995)
صبا اپنے آنچل میں اُس در کی
مٹی کا غازہ چھپاتی رہے گی
شفق اپنے چہرے پہ سُرخی حیا کی سجاتی رہے گی
گھٹا اپنے کندھوں پہ دو شالہ اوڑھے محبت کے گہرے سمندر سے پانی کی بوندوں کی خیرات
لیتی رہے گی
قلم میرا مدحت کے پھولوں کے گجرے بناتا رہے گا
مِری چشم تر اپنی ویران راتوں کے آنگن میں خود ناچ اُٹھا کرے گی
مِری چشم تر مسکرایا کرے گی
مِرے روز و شب گنگنایا کریں گے
مِرے سر پہ رحمت کی چادر کا سایہ رہے گا
اِسی اسمِ تازہ کی خوشبو سے اوراقِ ہستی مہکتے رہے ہیں، مہکتے رہیں گے