پیش لفظ (شیر حسین ناظم)- غزل کاسہ بکف (2013)
آج سے 25 برس پہلے میں نے ایک نوجوانِ رعنا کو قریۂ اقبال رحمۃ اللہ علیہ سیالکوٹ میں دیکھا۔ حضرت علامہ مولانا عبد الجبار شیخ نے سیالکوٹ کے معروف قلعے کے ایک گوشے میں کتبِ سیرت کی لائقِ تحسین نمایش کا انتظام کیا ہوا تھا۔ یہ نوجوانِ رعنا کانفرنس ہال میں میرے ساتھ والی صندلی پر آکر براجمان ہو گیا۔ میرا اس سے تعارف نہیں تھا۔ جلسے کے بعد تعارف ہوا تو پتہ چلا کہ یہ پیکرِ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معروف نعت گو شاعر ہے اور علمی لحاظ سے ماشاء اﷲ بہت ہی بڑا دانشور اور نقاد ہے اور اس کا نام ریاض حسین چودھری ہے۔ اس سے مل کر میرے دل و جان میں سرور و انبساط کی لہر دوڑ گئی۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ ریاض حسین چودھری کی عزیز داری محبانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور عاشقانِ صحابہ کرام l اور حبدارانِ آلِ اطہار l حضرت الحاج غلام حیدر مرحوم و مغفور، حضرت غلام احمد اور حاجی محمد شفیع سے ہے تو میرے دل میں ریاض حسین چودھری کی محبت اور زیادہ بہجت افزا ہوئی۔
میں نے چودھری صاحب سے عرض کی: چودھری صاحب آپ کو مبارک ہو کہ آپ کی عزیز داری ان حضرات سے ہے جن کے اسمائے گرامی لوحِ محفوظ پر عشاقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فہرست میں محرر ہیں اور ان کے قلوب و اذہان پر تجلیاتِ ربانی کا نزول ہوتا رہتا ہے۔ وہ منعوتِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اورہر سال نہایت طمطراق سے زرِ کثیر و خطیر خرچ کر کے ممدوحِ ذوالجلال و محمودِ خلائق کا میلاد منعقد کرتے ہیں۔
ریاض حسین چودھری سے میری زبردست شناسائی ہوئی جو بعد ازاں اسلامی اخوت میں بدل گئی۔ میں کئی سال سیالکوٹ میں شیخ عبد الجبار صاحب کی دعوتِ خصوصی عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کانفرنس میں شریک ہو کر ریاض حسین چودھری کی میزبانی میں ماکولات و مشروبات اور دیگر لذیذ آذوقات سے متمتع ہوتا رہتا۔
در اوقاف میں نے دیکھا کہ یہ درویش خدا مست اس عالمِ رنگ و بو میں بقلب صمیم وعدۂ بلیٰ نبھا رہا ہے۔ اور اس کی عبدیت اس کی نس نس میں عود و عنبر کی طرح مشک فشاں ہے۔ اس کا قلب مصّفٰی ہے اور روح خوشبوئے گلہائے بوستانِ محبتِ رسول سے معطر ہے۔ اس کے روح و جاں میں مودّتِ آلِ اطہار انوار ریز ہے۔ وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر جمیل کرتا ہے تو اس کی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ رگ رگ میں خوشگوار انجذابی اضطراب ہے اور وہ مقرونین سیالکوٹ میں نہایتِ مواجہہ شریف میں اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حاضریاں بھر رہا ہے۔ گویا در دوری ہے مگر صاحبِ حضوری ہے۔ اسے فطرت نے گداز دل سے نواز رکھا ہے اورر قتیں اس کے قلب و روح میں لطافتیں پیدا کر رہی ہیں۔
ریاض حسین چودھری صاحبِ دیدۂ بیدار ہے، کشتۂ عشقِ سیدِ ابرار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے، شرابِ مدح و ستایشِ محبوبِ خدا سے سرشار ہے، عبدِ پُر ایثار ہے، اسی لئے عرب و عجم میں نامدار اور مقاصد میں کامگار ہے۔ ایک عالم نودعی اور المنی ہونے کے ناطے اس کی قوت واہمہ (Imaginative Power) اس قدر سرعت گیر ہے کہ وہ عالمِ ناسُوت میں بیٹھ کر عالمِ لاہوت سے نکات نادرہ حاصل کر کے عطارد کے سینے سے ّمقطر کر کے عرش سے فرش پر لے آتا ہے اور اس محنت و سعی کے بعد اپنے قارئین و سامعین کے لئے سامانِ کیف و سرور پیدا کرتا ہے۔
ریاض حسین چودھری کو مبداء فیاض سے دولتِ گداز اور ثروتِ رقت عطا ہوئی ہے۔ جس نے ان کی تطہیرِ فکر اور تنویرِ روح کا سامان کر دیا ہوا ہے۔ بس یہی تطہیرِ فکر اور تنویرِ روح اس کے شبدیز و رخش ہیں جن پر سوار ہو کر وہ انفس و آفاق کی سیر کرتا ہے اور نعت کیلئے منتخب الفاظ اور منتخب تراکیب کی مشایعت میں گوشۂ تنہائی میں بیٹھ کر نعتِ رسول کی برکت سے ان کی تلوین و تزئین و تمکین کرتا ہے۔
فی زمانہ ریاض حسین چودھری وہ عبدِ رسول اور چاکرِ بتول ہے جس کا سینۂ بے کینہ مضامین و موضوعاتِ نعت کا گنجینہ بن چکا ہے جن کو وہ صفحات اوراق کی زینت بناتا رہتا ہے۔ دلکش اشعارِ حمد و نعت اس کی کلک و قلم کا رزق بنتے رہتے ہیں۔ پس اس کو رزق ثناء بھی وافر مقدار میں میسر ہے اور زرِ معتبر سے بھی اس کا دامن مملؤ ہے۔
ریاض حسین چودھری کا یہ بہت بڑا اعزاز ہے کہ طویل نعتیہ نظمیں لکھنے میں یدِ طولیٰ رکھتے ہیں۔ قارئین کرام کی روحانی تواضع ایسے دلکش انداز میں کرتے ہیں کہ ہر قاری ان کا ہی ہو کر رہ جاتا ہے۔ ان کی ان نظموں میں سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وہ حسین و جمیل واقعات ہیں جنہیں پڑھ کر قاری عمل کی دلکشا وادی میں آ جاتا ہے اور اُسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شعشہ دانیوں میں قاری حیاتِ مستعار کے لمحات گزار کر اپنے خالق و مالک اور منعوتِ کونین کی ملاذ وپناہ میں آ جاتا ہے۔ یہ سب تاثیرِ شعر کا کمال ہے۔
ریاض حسین چودھری جو کچھ بھی لکھتا ہے، عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حصار میں بیٹھ کر لکھتا ہے۔ علمائے امت نے لکھا ہے کہ عشق، حُبّ کی زبردست تفسیر ہے اور عشق وہ قوت تعمل ہے جس سے انسان اپنی منزلِ مقصود پر بغیر عملِ تعسیر کے پہنچ جاتا ہے۔ یعنی ایک عاشقِ رسول اور محبِّ ذوالجلال اپنی زیست زمانِ منقسم سے نکل کر زمانِ حقیقی میں رہ کر گزارنے لگتا ہے۔ اس کے فکر کے ابواب اس طرح وا ہوتے ہیں کہ اس کا دل جامِ جہاں نما بن جاتا ہے۔ اسے ہر طرف تجلیات کے چہرے نظر آتے ہیں جن پرنعت گوئی کے قرینے تحریر ہوتے ہیں۔ ریاض حسین چودھری مقناطیسی نوری عینک سے دیکھتا ہے پھر دل میں جذب کر لیتا ہے اور ان کی برکات، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لطف و کرم اور اﷲ تعالیٰ کی توفیقات سے معیاری نعت کہتا ہے اور ملائِ اعلیٰ سے یہ تحسینی مصرع اپنے کانوں سے سنتا ہے:
ایں کار از تو آید و مرداں چنیں کنند
لیکن چونکہ وہ ڈاکٹر ریاض مجید، حافظ لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ ، حفیظ تائب رحمۃ اللہ علیہ ، پیر نصیر الدین نصیر رحمۃ اللہ علیہ کا جلیس ہے، اس لئے یہ تحسینی مصرع سن کر بھی حضرت العلام فقیر اﷲ عصرہٗ، عالمِ نبیلِ وقت، شاعرِ نعت زمانی، صوفیٔ اعظمِ دوراں عالیجناب حافظ محمد افضل فقیر رحمۃ اﷲ علیہ کا ردیف بن کر اُن کا ایک شعر لب کی زینت بنا لیتا ہے:
کیا فکر کی جولانی کیا عرضِ ہنر مندی
توصیفِ پیمبر ﷺ ہے توفیقِ خداوندی
اس عجز و انکسار کے اظہار پر کارکنانِ قضاو قدر ریاض حسین چودھری کی تعریف و توصیف کے بعد اس کی ہر کام میں تسہیل کی دعا کرتے ہیں جس سے وہ اپنے قلب و روح میں تسکین و تبرید محسوس کرتا ہے جو بلاشبہ ایک روحانی درجہ و منزل ہے۔ اس منزل کے حصول کے لئے ایک عاشقِ رسول کثرت سے وردِ درود ِپاک سے کام لیتا ہے۔ میرے فہم کے مطابق صلوٰۃ و سلام ایک ایسا پاکیزہ و منزہ صافی ہے جو قلب کے نہاں خانوں کو منور کر دیتا ہے۔ بس جس کو دلِ روشن اور قلبِ بینا مل گیا اس کی قدر و قیمت صرف ملیک المقتدر ہی کو معلوم ہے یا عالمِ ما کان وما یکون صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو۔
قارئین کرام! آپ کو معلوم ہو گیا ہو گا کہ ریاض حسین چودھری کی ذیل و کسیہ میں کیا کیا نعمتیں ہیں اور سب سے بڑی نعمت درود خوانی ہے۔
صلوٰۃ و سلام کے فوائد میرے خیال میں آفاق میں نہیں سما سکتے۔ ان فوائد کو کبھی نجومِ عرش دیکھتے ہیں، کبھی بدُورِ فلک دیکھتے ہیں اور کبھی شموس و کہکشاں دیکھتے ہیں اور زبانِ حال سے کہتے ہیں اہلِ اسلام، اہلِ ایقان اور اہلِ ایمان کیا خوش طالع ہیں جنہیں قسامِ ازل نے یہ فوائد عطا کئے ہیں۔ پیارے قارئین! ان حضرات میں ریاض حسین چودھری بھی شامل ہے۔ الشکر اللہ والصلوٰۃ والسلام علیٰ رسول اللہ
زیرِ نظر مجموعہ نعت المسمّٰی ’’غزل کاسہ بکف‘‘ دراصل ریاض حسین چودھری کے بقول غزل کی ہیٔت میں نعتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مشتمل ہے جس کی تفصیل انہوں نے اپنے ایک خط میں اس طرح بتائی ہے:
’’غزل کاسہ بکف‘‘ کی پہلی نعت چار سو اشعار پر مشتمل ہے۔
ہشت نعتیہ میں آٹھ نعتیں ہیں اور ہر نعت پچاس اشعار پر محیط ہے۔
اس کے بعد چہار نعتیہ، سہہ نعتیہ، دو نعتیہ اور مزید چند ایک نعتیں شامل ہیں۔
ریاض حسین چودھری نے ’’غزل کاسہ بکف‘‘ کا آغاز حمدِ ذوالجلال سے کیا ہے جس کا عنوان ’’یا قادرِ مطلق‘‘ ہے۔ اس حمد کا پہلا شعر ہی عباد الرحمن کے قلوب اچک لیتا ہے۔ وہ کہتے ہیں:
مرے خدا کبھی سوکھے نہ میرے نطق کی جھیل
زمینِ تشنہ پہ جاری ہو پانیوں کی سبیل
اس حمدیہ شعر پر ہزار ہا تحسینات قربان۔ اسی حمد کے چند اور اشعار ملاحظہ فرمائیں:
مرے حضورؐ کا ارشاد ہے، خدا ہے ایک
نہ میرے پاس ہے حجت نہ میرے پاس دلیل
مرے خدا تری توصیف ہی سے شام و سحر
مری زبان پہ جاری ہے تیرا ذکرِ جمیل
جوارِ شہرِ قلم میں ہے نکہتوں کا ہجوم
ورق ورق پہ ہے تفہیمِ آرزوئے خلیل
مکہ معظمہ میں لکھی گئی اس حمد کے لئے لفظوں کا انتخاب دلربا ہے۔
حمد کے بعد ہشت نعتیہ کا آغاز ہوتا ہے۔ اس کے چار سو اشعار میں ریاض حسین چودھری کی علمی وجاہت، لوذعیت، قرآن فہمی، سیرت پاک کا فہم، اسرار و غوامضِ شعر و شاعری، عمدہ و دلکشاء کلام الشعراء سے استفادہ، اور سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور عَرضِ احوال لمعان پاشیاں کر رہے ہیں۔ ریاض حسین چودھری کو تین توفیقات ارزانی ہوئی ہیں، ملاحظہ ہوں:
برستی رہتی ہیں ساون کے بادلوں کی طرح
حضور میری بھی آنکھیں مرے بڑوں کی طرح
فضائے نعت میں اڑتے ہوئے نہیں تھکتا
مرا قلم بھی ہے جبریل کے پروں کی طرح
ہزار تختیاں لکھی ہیں یانبیؐ جن پر
حروفِ نعتِ مسلسل ہیں مشعلوں کی طرح
آج کا دور فتنہ سامانیوں، دسیسہ کاریوں، مختلف سیاسی و روحانی بیماریوں کا دور ہے اور دشمنانِ اسلام اور اعدائے دینِ مبین ملتِ اسلامیہ پر اس طرح چڑھ دوڑے ہیں جیسے خوانِ یغما پر بھوکے جانور۔ مسلمانانِ عالم کثرت میں ہونے کے باوجود وہن میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ ان کی غیرت و حمیت کو ہر طرف للکارا جا رہا ہے۔ ان اعداء کا خوف اور کراہیت موت طاری ہے۔ ان میں اتحاد و اتفاق کی کوئی چیز نہیں رہی۔ وہ یہود و ہنود کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ اپنی دولت کو ان کے بینکوں میں جمع کرا کے ان کی معیشت کو مستحکم و مضبوط تر بنا رہے ہیں۔ جن ایمانیات، اخلاقیات اور معاملات نے ان کو جہان بھر میں معزز و مؤقر اور صاحبِ اقتدار بنایا ہے انہیں بھول گئے ہیں اور از سرِ نو رسومِ قبیحہ پر کار بند ہوتے جا رہے ہیں۔ اس صورت میں ریاض حسین چودھری کا دل کڑھتا ہے اور وہ قلبِ بریاں لے کر بارگاہِ رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ایک مستغیث کی صورت میں استمداد کے لئے حاضر ہوتے ہیں اور الطاف حسین حالی اور حکیم الامت علامہ اقبال کے ہم نوا ہو کر اپنے الفاظ میں استغاثہ پیش کرتے ہیں!
عطا ہو آج بھی انساں کو ضبط کی چادر
حضورؐ عہدِ منور کے ضابطوں کی طرح
حضورؐ تیز ہوائیں اڑائے پھرتی ہیں
بدن کی خاک کو چڑیوں کے گھونسلوں کی طرح
حضورؐ شامِ حوادث میں اشک لگتے ہیں
زمیں پہ پھیلے ہوئے ان گنت دکھوں کی طرح
حضورؐ مجھ کو رہائی نصیب ہو جائے
کھڑا ہوں کب سے کٹہرے میں ضامنوں کی طرح
قدم قدم پہ مناظر ہیں خود کشی کے بہت
حضورؐ، امتی نیزوں پہ ہیں سروں کی طرح
کتابِ شامِ تشدد حضورؐ کیا کھولوں
ورق ہیں جنتِ ارضی کی وادیوں کی طرح
ہوائے دشت مجھے لے چلی ہے مقتل میں
بچھڑ گیا ہوں میں موجوں سے ساحلوں کی طرح
حضورؐ، امتِ سرکش کے ماتمی چہرے
پڑے ہیں بند مکانوں میں تعزیوں کی طرح
ریاض حسین چودھری کا یہ استغاثہ قلبِ مضطر سے چل کر اشکہائے رواں پر ختم ہوتا ہے جس میں وہ مسلمانانِ عالم کی بے حسی کا ذکر کرنے کے بعد ان کی باہمی ناچاقیوں اور عداوتوں کا رونا روتا ہے جسے سن کر ہر صاحبِ دل اور محبِّ اسلام گریہ والحاح کی نذر ہو جاتا ہے۔ المختصر ’’غزل کاسہ بکف‘‘ مسلمانانِ عالم کی سیاسی، معاشرتی اور تمدنی زبوں حالی پر نوحۂ دل گداز ہے جسے اس نے ایک اشد ضرورت کے تحت لکھا ہے۔ اﷲ کرے یہ استغاثہ بارگاہِ سید عالم پناہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں قبول ہو اور اس پر غور و خوض کے بعد اہلِ اسلام واعتصموا بحبل اﷲ جمیعاً کے امر واجب الاذعان پر عمل پیرا ہوں۔ وہ از سرِ نو اپنے آپ کو سلکِ اتحاد میں پروئیں اور انتم الاعلون کا مژدہ جاں فزا سنیں۔
میری دعا ہے کہ ریاض حسین چودھری کی یہ کاوش عرش و فرش میں پذیرائی پائے اور مسلمانانِ عالم اسے پڑھیں۔ ان کی غیرت و حمیت جاگے اور وہ حماسۂ حسینی پر عمل کر کے اسلام کی شوکت و سطوت کو بحال کریں۔
ایں دعا از من و از جملہ جہاں آمیں باد
محسود الناس
بشیر حسین ناظم
تمغہ حسنِ کارکردگی
علامہ اقبال خصوصی طلائی تمغہ
لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ
4 جون 2010
اسلام آباد