ہوس کاروں نے پر بھی نوچ ڈالے فاختاؤں کے- غزل کاسہ بکف (2013)
چلے ہیں قافلیِ سوئے حرم بنجر نوائوں کے
اثر دیکھوں گا مَیں بھی ایک دن اپنی دعائوں کے
جبینِ شعر پر یہ کس کے قدموں کی شفق پھوٹی
کہ دستارِ سخن میں بھر گئے موتی صدائوں کے
میں اُنؐ کے نقشِ پا کو منزلِ جاں کیوں نہ ٹھہرائوں
سرِ افلاک بھی چرچے ہیں جن کی انتہائوں کے
صبا دربارِ اقدس سے اجازت لے کے آئی ہے
بلند اوجِ ثریا سے مقدر ہیں گدائوں کے
میں اکثر سوچتا ہوں شامِ تنہائی کے لمحوں میں
مری آنکھیں کہاں قابل ہیں طیبہ کی ضیائوں کے
بظاہر امنِ عالم کا قصیدہ لکھنے والوں نے
جلا ڈالے ہیں بوڑھے پیڑ ٹھنڈی ٹھار چھائوں کے
زباں کو اذنِ گویائی ملا ہے نعت گوئی سے
وگرنہ چاک دامن تھے صحیفوں کی قبائوں کے
ریاضؔ اپنے لبوں پر ناز فرمانے کے دن آئے
کہ لہرانے لگے ہیں جام رحمت کی گھٹائوں کے
*
ہمارے بے صدا چہرے ہیں مظہر کج ادائوں کے
ادب کی حد سے بھی گزرے ہیں نالے بے نوائوں کے
دہائی دے رہی ہے پھر دکھی انسانیت مولاؐ
ہوس کاروں نے پر بھی نوچ ڈالے فاختائوں کے
عطا حوّا کی بیٹی کو کریں اب چادرِ زینبؓ
یزیدوں کے عَلَم آنچل بنے ہیں داشتائوں کے
وہ تنہائی سی تنہائی مسلط ہے مرے آقاؐ
کہ انسانوں کے باطن میں بھی منظر ہیں خلائوں کے
حضورؐ، اب آدمی اپنے ہی سائے سے ہراساں ہے
محیطِ جسم و جاں تیور ہیں طوفانی ہوائوں کے
فراتِ عشق کی تذلیل ہوتی ہے سرِ مقتل
مناظر لوٹ آئے ہیں وطن میں کربلائوں کے
ملی ہیں جھڑکیاں امت کے بزدل رہنمائوں کو
ہوئے ہیں زرد چہرے کانپتی سی التجائوں کے
ریاضؔ اپنے وطن کی خاک کے آنسو بھی لایا ہے
رسولِ محتشمؐ کیجیے کرم اپنی عطائوں کے