اندر کے بھی انسان کی بیدار ہیں آنکھیں- غزل کاسہ بکف (2013)
کشکولِ طلب میں زرِ دیدار ہیں آنکھیں
اے شہرِ خنک، گرمیٔ بازار ہیں آنکھیں
قدموں میں، ازل سے مری، سرکارؐ ہیں آنکھیں
بخشش کی، سرِ حشر، سزاوار ہیں آنکھیں
کیسے مَیں نظر آپؐ کی چوکھٹ پہ اٹھائوں
سرکارؐ، بہت میری گنہگار ہیں آنکھیں
جس شخص نے سرکارؐ کا روضہ نہیں دیکھا
اُس شخص کی بے کار ہیں، بے کار ہیں آنکھیں
آنسو کوئی دامن میں بھی گرنے نہیں دیتیں
بیشک یہ مری صاحبِ کردار ہیں آنکھیں
اس دھن میں کہ دیں نقشِ کفِ پا کو سلامی
افلاک سے بھی برسرِ پیکار ہیں آنکھیں
ہر سال محرّم میں چھلک پڑتی ہیں خود ہی
یہ آلِ پیمبرؐ کی وفادار ہیں آنکھیں
یہ جاگتی رہتی ہیں پسِ نعتِ پیمبرؐ
یلغارِ حوادث سے خبردار ہیں آنکھیں
ہر روز یہ بنتی ہیں مدینے کی مسافر
ہر وقت اِسی کیف میں سرشار ہیں آنکھیں
جب بھی ہے کھُلی آنکھ تو دیکھا ہے یہ منظر
ہر شاخِ برہنہ پہ ثمربار ہیں آنکھیں
رحمت کے لئے جام اترتے ہیں فرشتے
ہر ساعتِ طیبہ کی طرف دار ہیں آنکھیں
یہ جب بھی لکھیں اِن سے لکھا جائے محمدؐ
جو چاہیں لکھیں مالک و مختار ہیں آنکھیں
لکھتا ہے ریاضؔ اشکِ مسلسل کی کہانی
اے ملکِ ثنا! ندرتِ افکار ہیں آنکھیں
*
محرابِ عقیدت میں گہر بار ہیں آنکھیں
یہ کس نے کہا مفلس و نادار ہیں آنکھیں
اتنی بھی خبر تم کو ستارو نہیں اب تک
کس خاکِ منور کی طلب گار ہیں آنکھیں
دامن ہے تہی، پھر بھی، سرِ بزمِ تمنا
ہر عکسِ محبت کی خریدار ہیں آنکھیں
ہر روز حضوری کے مزے لیتے ہیں پہروں
برسوں سے ہماری سرِ انوار ہیں آنکھیں
طائف کا وہ دن آنکھوں سے اوجھل نہیں ہوتا
اندر کے بھی انسان کی بیدار ہیں آنکھیں
انوار بصیرت کے بھی دیں دستِ ہنر میں
دہلیز پہ نم سیدِ ابرارؐ! ہیں آنکھیں
ہر اشک میں رکھتا تھا دیے نعت کے روشن
شاعر کی لحد میں بھی ضیا بار ہیں آنکھیں
سرسبز یہ رہتی ہیں چمن زارِ ثنا میں
پھولوں میں رکھوں تو گلِ بے خار ہیں آنکھیں
سورج کی تمازت سے کسے خوف ہے، ہمدم!
منٹھار ہیں، منٹھار ہیں، منٹھار ہیں آنکھیں
اشکوں سے خطائوں کے بھی دھل جاتے ہیں پیکر
بخشش کے چمکتے ہوئے آثار ہیں آنکھیں
جو نامِ نبیؐ سن کے چھلکنے سے ہیں قاصر
سمجھو کہ وہ بدبخت ہیں، بیمار ہیں آنکھیں
اس عالمِ رویا میں ریاضؔ آج کی شب بھی
صد شکر مری حاضرِ دربار ہیں آنکھیں
سو بار میَں چوموں گا ریاضؔ اسمِ گرامی
قدرت کا عطیّہ ہیں، یہ شہکار ہیں آنکھیں