ثنا میں محو تھے شام و سحر، کل شب جہاں میں تھا- غزل کاسہ بکف (2013)
تھے مصروفِ ثنا دیوار و در، کل شب جہاں مَیں تھا
بنا تھا کُل جہاں احمد نگر، کل شب جہاں میَں تھا
عجب سی روشنی پھیلی ہوئی تھی قریۂ جاں میں
اتر آئے تھے خود شمس و قمر، کل شب جہاں مَیں تھا
کرم کے سبز سکّوں سے بھری تھیں جھولیاں سب کی
برستے تھے فضائوں سے گہر، کل شب جہاں مَیں تھا
ہوائیں وَجد میں آ کر مرے ہونٹوں پہ رکھتی تھیں
گلابِ مدحتِ خیر البشرؐ، کل شب جہاں مَیں تھا
مرے بچّے بھی خوشبو کے کٹورے لے کے چلتے تھے
نظر آیا مجھے میرا یہ گھر، کل شب جہاں مَیں تھا
محمدؐ ہی محمدؐ ہر طرف لکھا ہوا پایا
اُنہیؐ کا ذکر تھا، المختصر، کل شب جہاں مَیں تھا
کرم کے سائباں میں آرزوئیں رَقص کرتی تھیں
تھے مجھ سے بے نوا بھی معتبر، کل شب جہاں مَیں تھا
تھیں میرے سر پہ لاکھوں گٹھڑیاں میرے گناہوں کی
دعائے مغفرت تھی ہمسفر، کل شب جہاں مَیں تھا
ہجوم اشکوں کا گرنے ہی نہیں دیتی تھی دامن میں
بہت ہی باادب تھی چشمِ تر، کل شب جہاں مَیں تھا
کسی زادِ سفر کی کیا ضرورت رہ گئی باقی
بدن سے جھڑ رہے تھے بال و پر، کل شب جہاں مَیں تھا
فرشتے طشت الماس و جواہر کے لٹاتے تھے
سحابِ زر میں تھی ہر رہگذر، کل شب جہاں مَیں تھا
کھڑے تھے احتراماً اہلِ دنیا کتنی صدیوں سے
ہتھیلی پر لئے اپنے ہنر، کل شب جہاں مَیں تھا
سمن زاروں پہ بارش ہو رہی تھی نور و نکہت کی
موثر تھی دعائے بے اثر، کل شب جہاں مَیں تھا
خدا کی حاکمیت کا وہاں اعلان ہوتا تھا
گرے سجدے میں تھے سارے شجر، کل شب جہاں مَیں تھا
اجالا ہی اجالا تھا، درودوں کا، سلاموں کا
ثنا میں محو تھے شام و سحر، کل شب جہاں مَیں تھا
رکھے تھے پھول ہر نقشِ کفِ پائے محمدؐ پر
نہیں تھی شاخ کوئی بے ثمر، کل شب جہاں مَیں تھا
فقط ہر سَمْت دلجوئی کا موسم پرکُشا دیکھا
تہی دامن بنے تھے تاجور، کل شب جہاں مَیں تھا
فرشتے کہہ رہے تھے، پھر سے کہنا نعت کا مقطع
ریاضِؔ بے نوا تھا جلوہ گر، کل شب جہاں مَیں تھا