صحنِ جاں میں برستی گھٹاؤ! سنو، پھول کھلتے رہے نعت ہوتی رہی- غزل کاسہ بکف (2013)
حلقۂ شعر و فن کی ہوائو! سنو، پھول کھلتے رہے نعت ہوتی
رہی
میرے لب پر مچلتی دعائو! سنو، پھول کھلتے رہے نعت ہوتی رہی
خلدِ طیبہ کے شاداب گلزار میں، میرے آقاؐ کے پر نور دربار
میں
سر جھکاتی ہوئی التجائو! سنو، پھول کھلتے رہے نعت ہوتی رہی
ہر افق پر ازل سے یہ تحریر ہے، عافیت خوابِ آدم کی تعبیر
ہے
امنِ عالم کی اے فاختائو! سنو، پھول کھلتے رہے نعت ہوتی رہی
جگنوئوں کی قطاریں ہوائوں میں ہیں، تتلیاں رتجگوں کی فضائوں
میں ہیں
گریۂ شب کی روشن قبائو! سنو، پھول کھلتے رہے نعت ہوتی رہی
کشتِ ایماں میں بھی، معبدِ جاں میں بھی، آنسوئوں سے بھری
چشمِ حیراں میں بھی
وادیٔ عشق کی اپسرائو! سنو!، پھول کھلتے رہے نعت ہوتی رہی
قافلے خوشبوئوں کے گزرتے رہے، جمگھٹے روشنی کے اترتے رہے
رحمتِ مصطفیٰ کی ردائو! سنو، پھول کھلتے رہے نعت ہوتی رہی
خوشنما، دلکشا ہے فضا رات کی، اس میں کلیاں کھلی ہیں مناجات
کی
صحنِ جاں میں برستی گھٹائو! سنو، پھول کھلتے رہے نعت ہوتی رہی
چاندنی ہر شجر پہ بسیرا کرے، شب کا پچھلا پہر ہے سویرا کرے
گونج گنبد میں اپنی صدائو! سنو، پھول کھلتے رہے نعت ہوتی رہی
محفلِ نعت میں ذکرِ میلاد ہے، خطّۂ دیدہ و دل بھی آباد
ہے
قریۂ جاں کی سرکش انائو! سنو، پھول کھلتے رہے نعت ہوتی رہی
بادباں بن گیا ہے درودِ نبیؐ، لوٹ جائے گی ہر موج بپھری
ہوئی
میری کشتی کے اے ناخدائو! سنو، پھول کھلتے رہے نعت ہوتی رہی
تشنہ لب بن گئے میرے حرفِ دعا، حشر کیسا ہوا بستیوں میں بپا
شامِ مقتل کی اے کربلائو! سنو، پھول کھلتے رہے نعت ہوتی رہی
اوج پر ہے ستارا ریاضؔ آج بھی، اِس طرف روشنی، اُس طرف روشنی
میرے لوح و قلم کی نوائو! سنو، پھول کھلتے رہے نعت ہوتی رہی