موسم تمام تر مرے اُن ؐ کی گلی کے ہیں- غزل کاسہ بکف (2013)
الفاظ محترم ہیں کہ نعتِ نبیؐ کے ہیں
اوراق اور قلم مرے سب روشنی کے ہیں
اشکوں سے حرف حرف کا چہرہ دُھلا ہوا
انداز مختلف مری نامہ بری کے ہیں
ہر سمت چاند اور ستاروں کا ہے ہجوم
منظر کمال آپؐ کی روشن گلی کے ہیں
اللہ کے برگزیدہ رسولوں کی ذات میں
اوصاف جس قدر بھی ہیں میرے نبیؐ کے ہیں
دیوانہ انؐ کے شہرِ مصوَّر کا ہوں فقط
جذباتِ دلنشیں مرے فرزانگی کے ہیں
اُمت کا زخم زخم ہے اِن میں سجا ہوا
اشعار میرے اصل میں نوحہ گری کے ہیں
تحریرِ امنِ دائمی ممکن نہیں لکھیں
باطل کے جتنے روپ ہیں سب سرکشی کے ہیں
سرکارؐ، دشمنوں کی طرف سے ہوا کے ہاتھ
جتنے جواب آئے ہیں غارتگری کے ہیں
چپ چاپ شہرِ علم کے در پر کھڑے رہو
موسم تمام اُنؐ کی رضا کے علیؓ کے ہیں
زادِ سفر سنبھال کے رکھو کہ میں چلا
اسباب میرے ساتھ مری حاضری کے ہیں
حصّہ بنوں گا ظلمتِ شب کا مَیں کس لیے
میرے دیے تمام مری خامشی کے ہیں
کیسے قدم اُٹھاؤں گا شہرِ حضورؐ میں
میرے تمام رابطے وارفتگی کے ہیں
آقا حضورؐ، اجلی سحر کی تلاش میں
سورج پہ ہاتھ آج بھی تیرہ شبی کے ہیں
مجھ کو ہے حکم آگ کی بارش میں چپ رہوں
آقاؐ، یہ سانحات مری بے بسی کے ہیں
آنسو، چراغ، پھول، ورق، چاندنی، قلم
سامان شامِ ہجر میں چارہ گری کے ہیں
مرگ آشنا، مہیب، قلمزد، جلے ہوئے
چہرے یہ عہدِ نو کے نئے آدمی کے ہیں
رزقِ شکم اُٹھا کے مہاجن ہیں لے گئے
برسوں سے واقعات یہاں خودکشی کے ہیں
میرے مفادِ زر نے تراشے ہیں سومنات
دھبے مری جبیں پہ بھی بے رہروی کے ہیں
دامانِ رنگ و نور میں رہتا ہوں اس لیے
موسم تمام تر مرے اُنؐ کی گلی کے ہیں
تہذیبِ شر سے رکھو گے اُمید کیا، ریاضؔ
ہونٹوں پہ اس کے فلسفے کب شانتی کے ہیں
یہ تو خدا کے فضل پہ ہے منحصر، ریاضؔ
پروانۂ نجات، عمل کب کسی کے ہیں