روشن ضمیر گنبدِ افلاک کا ملے- غزل کاسہ بکف (2013)
ہر آئنے کو عکس کفِ پاک کا ملے
دھوون جنابِ سیدِ لولاکؐ کا ملے
ہجرِ نبیؐ کی شامِ تقدس مآب میں
کوئی چراغ دیدۂ نمناک کا ملے
لفظوں کو کر رہا ہوں مصوَّر ورق ورق
ہر گز نہ نقش عہدِ المناک کا ملے
میرے قلم کو مدحتِ سرکارؐ کا صلہ
جو بھی ملے وہ عِلْم کی پوشاک کا ملے
قرآں سے مجھ کو روشنی ملتی رہے، حضورؐ
لمحہ، مرے سخن کو بھی ادراک کا ملے
اس نے سنبھال رکھی ہیں یادیں حضورؐ کی
روشن ضمیر گنبدِ افلاک کا ملے
طیبہ نگر میں آمنہ بی بیؓ کے لالؐ کے
صدقے میں ایک پھول زرِ خاک کا ملے
آقاؐ، محیط جرمِ ضعیفی کا ہے عذاب
عزمِ عروج بھی دلِ بیباک کا ملے
مدحت کی وادیوں میں جو پھیلی ہیں دور تک
حقِ تصرفات ان املاک کا ملے
مانگو ریاضؔ اپنے خدا سے دعا، کفن
شہرِ حضورؐ کے خس و خاشاک کا ملے