فردوسِ مدحت کی منزلِ ادب کا مکیں- برستی آنکهو خیال رکهنا (2018)
ریاض حسین چودھری کی شخصیت اور کام کے حوالے سے کماحقہ بات کرنا نور کے جس بحرِ مواّج اور نعت کے عملِ تخلیق سے پھوٹنے والی ترشحات قلم کے جس ادراک کا متقاضی ہے اس کے لئے ریاض سے روحانی قربت اور کلامِ ریاض کی وسعتوں کو سمیٹنے والا وجدان ہو تو بات بنے۔نعت نگاری کے اساتذہ میں سے تو وہ تھے ہی مگر اسی کے ساتھ وہ مقامِ حضوری پر بھی فائز تھے اور محبوبِ حقؐ کی چوکھٹ سے ان کے قلب و نظر کا گہرا رشتہ تھا جو عالمِ ارواح میں ہی وجود میں آگیا تھا ؎
روز الست آنکھ جو کھولی شعور نے
قدرت نے ایک نور سا ہاتھوں میں رکھ دیا
میری ان سے ملاقات سن 2000ء میں ہوئی جس کا ذکر میں نے ان کے بہت اصرار پر لکھی اُس تحریر میں کیا جو انہوں نے کمال شفقت سے کشکولِ آرزو میں ’’نعت میں تغزّل اور شعریت کی ایک وہبی صورت‘‘ کے عنوان سے شامل کی۔ وہ ملاقات مجھے آج بھی یاد ہے جو اپنی مقناطیسیت کے ساتھ میری روح میںسرایت کر گئی۔پھر میرا ہدف یہ رہا کہ ان کی قربت سے روح کی وہ نغمگی حاصل کر لوں جس میں جوارِ گنبدِ خضریٰ کے کرم بار موسم کی خوشبو رچی ہوئی ہو۔ تب سے میں نے اُن سے ربطِ پیہم کی ٹھان لی اورہر سال ایک مجموعۂ نعت زیور طبع سے آراستہ کر کے ریاضؔ کے اس حکم کی تعمیل کرتا رہا ؎
بیاضِ نعتِ محمدؐ مرا اثاثہ ہے
ورق ورق کو مدینے سجا کے لے جانا
ان کا آٹھواں مجموعہ نعت’’غزل کاسہ بکف‘‘ اور اس کے بعد طبع ہونے والے مجموعہ ہائے نعت کی اشاعت میں مجھے ان کا دستِ راست ہونے کی سعادت حاصل گئی۔اور مدحتِ رسولِ محتشمؐ کے یہ وہبی و لاہوتی گلدستے بارگاہِ رسالتؐ میں ، اپنے اشک ہائے ندامت کی برستی گھٹاؤں میں شرابور ، پیش کرتا رہا۔اس پر ریاض کی خوشی ناقابلِ بیان ہوتی۔اُن کا میرے اوپر یہ احسان دراصل سرکارِ دوعالم ؐ ہی کا تو اِس غلام پر خصوصی کرم ہے جس نے میری روح کی پہنائیوں کو توبہ و تشکّر کی بہارِ جاوداں کے گلہائے رنگ رنگ اور اُن سے مہکتے ہوئے سمے کا جل ترنگ مزاج عطا کر رکھا ہے جس میں اکثر بھیگا رہتا ہوں۔ ربِّ نعت ہمارے اس محبوب اور برگزیدہ مدحت نگارِ رسولؐ کو طیبہ کی خاکِ نور کا وہ پیرہن عطا کرے جس کی تمنا انہوں اس طرح کی ہے ؎
طیبہ کی خاکِ نور سے اک پیرہن بنو
وہ پیرہن لحد میں بدن پر سجا رہے
ان کی صحت بتدریج گرتی گئی اور ہمارے درمیان رابطہ بھی مستحکم ہوتا گیا۔ 2015ء میں بارہویں نعتیہ مجموعے تحدیث نعت کی اشاعت کے بعد ریاض مجھے کہنے لگ گئے کہ انہوں نے نعت میں بہت کام کر رکھا ہے جس کے لئے انہیں اپنے بعد بھی میری ضرورت ہے۔ مگر انہوں نے یہ کام مجھے دکھایا نہیں تھا۔ البتہ اتنا ضرور بتا دیا کہ تیرہویں مجموعے ’’زم زمِ عشق‘‘ کے بعد مزید دس مجموعہ ہائے نعت مرتب کئے ہیں۔ ان میں سے ’’لامحدود‘‘ اور ’’کائنات محوِ درود ہے‘‘ پر 16۔2015 ء میں کام ہوتا رہا۔ ان کی کمپوزنگ، پروف ریڈنگ، ٹائیٹل ڈیزائیننگ اور طباعت کے انتظامات، یہ سب امور طے ہوتے رہے۔
2017 ء کے اوائل ہی میں ریاض بہت بیتاب رہنے لگے۔نحیف تو وہ بہت تھے۔ گھر میں بھی دو چار قدم چلنا مشقت طلب تھا۔ میں انہیں creatinine کی مقدار بڑھ جانے پر گردوں کی فعالیت کے حوالے سے تشویش سے آگاہ کرتا رہا جبکہ پاؤں کا زخم شوگر کی وجہ سے مشکلات پیدا کر رہا تھا۔ depression کا بھی شکار رہتے۔ بعض اوقات تو رات کے پچھلے پہر بھی فون کرلیتے اور نعت کے حوالے سے اور اپنی طبیعت کے بارے میں حسبِ منشا بات چیت کرنے لینے کے بعد اکثر کہہ دیتے کہ اب میرا depression ختم ہو گیا ہے۔وہ میرے ساتھ بات کرنے کو بہت اہمیت دیا کرتے جس سے میں پھولا نہ سماتا۔
میں علاج کے لئے اکثر زور دے کر بات کرتا اور یہاں تک کہہ دیتا کہ میں آپ کو لاہور اپنے پاس لے آتا ہوں تو اپنے چھوٹے بھائی ڈاکٹر جنید چودھری صاحب کا ذکر بڑی محبت سے کرتے کہ وہ میرے علاج معالجے کی مؤثر نگرانی کر رہے ہیں۔ کئی بار میں ان کے صاحبزادے حسنین مدثر صاحب سے بھی رابطہ کرتا تو پتہ چلتا کہ وہ ڈاکٹروں کے ساتھ رابطے میں ہیں اور علاج ہو رہا ہے۔ جب ان کے پاؤں کا زخم تنگ کرنے لگا تو میں جنوری سے جون 2017ء کے دوران تین بار انہیں ملنے گیا اور اب وہ ہر بار مجھے کہہ دیتے کہ میری نعت کی غیر مطبوعہ کتابوں کی اشاعت کا وعدہ کریں اور میں ہر بار وعدہ کرتا کہ زندہ رہا تویہ کام ایک اعزاز سمجھ کر کروں گا۔ وہ مجھے بہت پیار کرتے اور میرا کوئی دکھ درد برداشت نہیں کرتے تھے۔
’’لامحدود‘‘ اور ’’کائنات محوِ درود ہے‘‘ ان کی زندگی ہی میں پرنٹنگ پریس چلی گئی تھیں جبکہ میں نے انہیں بتا دیا تھا کہ ان کی ویب سایٹ پر کام شروع کرا چکا ہوں اور انشاء اللہ تین یا چار ماہ میں اس پر کام مکمل ہو جائے گا۔(یہ ویب سائٹ ان کی زندگی میں تو مکمل نہ ہو سکی مگر الحمد للہ! اب یہ ویب سائٹ www.riaznaat.com مکمل ہو چکی ہے اور اسے استعمال کیا جارہا ہے۔) اِس دوران وہ اپنے سولہویں مجموعۂ نعت کا ذکر بھی چھیڑ چکے تھے۔ ’’برستی آنکھو! خیال رکھنا‘‘ ۔ نام زبان پر آیا تو ان کی آنکھوں سے نعت کے نگینے برسنے لگے۔میں نے تقاضا کیا تو فرمانے لگے، ابھی مسودہ فائینل نہیں ہوا۔
پھر یوں ہوا کہ 10 جولائی 2017ء کو ہسپتال سے ان کی شدید تکلیف کا فون آیا۔ ایسا فون انہوں نے مجھے اس سے پہلے کبھی نہیں کیا تھا۔میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ناگہانی آفت یوں بھی نازل ہو گی مگر قدرت کا فیصلہ تھا۔ اس بار ہرنیا کے جان لیوا درد نے انہیں دبوچ لیا تھا۔سرجری مشکل تھی، ڈاکٹرز نے خطرے سے آگاہ کردیا تھا مگرسرجری کے بغیر چارہ نہ تھا۔ اور پھر 20 روز ventilator پر رہنے کے بعدہمارے پیارے ریاض حسین چوہدری رحمتہ اللہ علیہ سب سے چھپ کر آخر وہیں رخصت ہو گئے جہاں جانے کے لئے وہ عمر بھر بیتاب رہے؎
بعد مرنے کے چلے جائیں گے سب سے چھپ کر
ایک گھر ہم نے مدینے میں بنا رکھا ہے
نعت کے غیر مطبوعہ مجموعے جن کی طباعت و اشاعت کے لئے ریاض مجھ سے بار بار وعدہ لیتے رہے میری زندگی کے اہم ترین کام کی حیثیت اختیار کر گئے۔ حسنین مدثر صاحب سے میرا مسلسل رابطہ تھا اور آخر ایک روز میں ان کے پاس پہنچ گیا اور مسوّدات کی زیارت کی درخواست کی۔ جب میں نے انہیں ملاحظہ کیا تو روح وجد میں آگئی۔ مرحوم نے ہر کتاب کے مسوّدے کو محبت کے ایسے قرینے سے مکمل کر کے الگ الگ محفوظ کیا ہوا تھا کہ حسن ترتیب کی مثال دیتے ہوئے میں یہ کہتا ہوں جیسے کوئی گرہستن اپنی بیٹی کی بَری ٹانک کر دکھاوے کے لئے سجا دیتی ہے۔آٹھ مسوّدات تھے اور ایسے کہ ہر صفحے پر اشعار کی وہی تعداد درج تھی جو مطبوعہ صفحے پر مطلوب تھے۔ مجھے کمپوزنگ کراتے وقت صرف اتنا کہنا ہوتا کہ صفحہ بہ صفحہ کمپوز کر دیں۔اور یوں تین ماہ کے قلیل عرصہ میں آٹھوں کتابیں کمپوز ہو گئیں۔اب ایک ایک کر کے ویب سایٹ پر upload بھی ہو جائیں گی اور اللہ کے فضل و کرم سے پرنٹنگ کے مراحل سے گذر کر کتابی شکل میں بھی آپ کے ہاتھوں میں ہوں گی۔
جیسا کہ میں نے ذکر کیا ہے ریاض بے حد علیل اور نحیف تھے۔ دو چار قدم چلنا بھی مشکل ہو گیا تھا۔ سانس کی تکلیف بھی تھی، شوگر اور بلڈ پریشر کے عوارض نے بہت نقصان کر دیا تھا اور اب گردوں کا فعل بھی متأثر ہو چکا تھا جب کہ ہرنیا کی تکلیف نے تو مارِ آستیں کی طرح ڈس لیا۔چنانچہ اس کتاب کے پہلے صفحے پر ہی انہیں ’’بسترِ علالت سے‘‘ کے الفاظ لکھنا پڑے۔ اس کتاب میں بیماری کا تذکرہ تو ملتا ہے مگر یہ تذکرہ ایک مدحت نگار نے اپنے حسبِ حال کیا ہے۔ مدینے کی ہواؤں سے رابطہ رکھنا ، پیغام بھیجنا اور وصول کرنا، صبا سے دوستی اور احوال دل کا بیان ، آبِ شفا، خاکِ شفا، ابرِ شفا اور حرفِ شفا کے تقاضے ، مدینے سے قاصد کا انتظار، چادرِ رحمت کی آرزو اور یہ یقینِ محکم بھی کہ سرکارؐ تو سب جانتے ہیں، اور عرفانِ ذات کے حوالے سے متعدد مضامین اس مجموعۂ نعت میں ہمیں جابجا ملتے ہیں۔ مختلف نعتوں میں بیماری کے حوالے سے لکھے گئے چند اشعار ملاحظہ ہوں۔ کون بیمار ہو گا جو ہواؤں سے التجا کرے گا کہ وہ اس کی بیماری کی خبر سرکارؐ مدینہ کی بارگاہِ اقدس تک پہنچا دیں۔ ریاض ایسے ہی ایک بیمار تھے جو اپنی ہر تکلیف سے نبی پاکؐ کو باخبر رکھتے ؎
ہواؤ! گر مدینے میں مقدّر تم کو لے جائے
خبر کرنا مری سرکارؐ کو میری علالت کی
اور انہیں اکثر شفا ہو جاتی، شوگر کی وجہ سے پاؤں کا زخم گنگرین کی طرف جاتے جاتے ٹھیک ہو گیا، اِس کرم پر وہ بے حد شکرگذار رہتے ۔دو قدم تو واقعتاً وہ چل نہیں پاتے تھے، پھر اس کے لئے وہ درِ رسولؐ سے آبِ شفائے جاں کی التجا کر رہے ہیں ؎
دو قدم چلنا بھی مشکل ہے مرے آقا حضورؐ
ہو عطا آبِ شفائے جاں کہ بیماروں میں ہوں
وہ خود لکھتے ہیں ؎
شہرِ طیبہ کی ہواؤں سے ہے میری دوستی
جو مدینے کا ہے موسم وہ مرے اندر کا ہے
ایسا غلامِ نبیِ مکرمؐ صبا کو مخاطب کر کے اپنے درد کے ازالے کے لئے یہی کہے گا ؎
صبا! طیبہ کے نخلستان سے آبِ شفا لا دے
مرے زخمی بدن کے واسطے مجھ کو دوا لا دے
مری اکھڑی ہوئی سانسوں نے خوشبو کو صدا دی ہے
جوارِ گنبدِ خضرا کی پھر آب و ہوا لا دے
ہر زخم مندمل مرا ہو گا سرِ بدن
آبِ شفا مدینے کی گلیوں سے آئے گا
زخم کی تکلیف اور اس کے انجام کے خوف سے ان کی لوحِ احساس زخم زخم ہو جاتی ہے جیسے انہوں نے زخموں کی شال اوڑھ رکھی ہو۔ پھر وہ چشمِ تصور میں زخموں کی یہ شال اوڑھ کر در رسول رحمتؐ پر پہنچ کر اس طرح ملتجی ہو جاتے ہیں ؎
زخموں کی شال اوڑھ کے آیا ہوں میں حضورؐ
خاکِ شفا کی چادرِ رحمت مجھے ملے
زخموں کی شال اوڑھ کے آیا ہوں مَیں حضورؐ
مرہم عطا ہو خاکِ شفا سے بنا ہوا
زخموں کی شال اوڑھ کے میری یہ ہچکیاں
آنسو حروفِ نو میں چھپائیں، کرم حضورؐ
تکلیف کی شدت کو ریاض نے حضورؐ کے درِ شفا کو یاد کر کر کے ایک لذتِ ذکر کے ساتھ برداشت کیا۔ حضوری میں ڈوبے ہوئے تو تھے ہی، اپنے زخم، دکھ ، درد اور لاچارگی کے حوالے سے ان کی وہبی شعریت ان پر غالب آ جاتی پھروہ اپنے شعری تجربوں میں خوب صورت اضافے کرتے رہتے ؎
ہاتھوں میں التماس کے گجرے لیے ہوئے
اے شامِ التماس مری روح میں اتر
زخموں سے چُور چُور ہے ہر پھول کا بدن
بادِ شفا کبھی مرے آنگن سے بھی گذر
چھاؤں کبھی جو بانٹتا رہتا تھا دھوپ میں
چپ چپ کھڑا ہے دشت میں بوڑھا سا وہ شجر
مَیں ادھورا جسم لے کر کس طرح آؤں، حضورؐ
بھیجئے قدموں کا دھوون، بھیجئے آبِ شفا
یانبیؐ، ابرِ شفا کو بارشوں کا حکم ہو
پھیلتا جاتا ہے زخمِ ناروا کا دائرہ
بدن کے زخم کیوں اب مندمل ہوتے نہیں یارب!
کٹوروں کے کناروں پر خنک آبِ شفا لکھ دے
ان کی ان تمام کیفیات کا محکم علاج بہر حال ان کا یہ پختہ ایمان ہے کہ سرکارِ دوعالمؐ کو اپنے شاعر کی سب خبر ہے۔ بس یہی احساس ان کے لئے آبِ شفا، خاکِ شفا اور ابرِ شفا کی حیثیت اختیار کر جاتا ہے ؎
میں کیوں در در پہ جا کر دوں صدا اے قافلے والو
مرا ایمان ہے، سرکارؐ کو ہے سب خبر میری
انہیں یقین حاصل ہو جاتا ہے کہ ان پر آقاؐ نے کرم فرما دیا ہے ؎
مرے زخمو! کرم فرما دیا ہے میرے آقاؐ نے
مدینے کی ہوا کے ہاتھ میں آبِ شفا ہو گا
مدینے کی ہواؤں سے ان کی دوستی لازوال ہے۔ انہیں پختہ یقین ہے کہ یہ آخری ایام ہیں لہٰذا اب وہ چاہتے ہیں کہ جی بھر کے سانس لیں اور ان کے ہر پور میں اب مدینے کی ہوا سرایت کر جائے ؎
سانس لوں جی بھر کے میں اِن آخری ایّام میں
میرے آنگن میں کبھی ٹھہرے مدینے کی ہوا
ایک ثلاثی میں وہ لکھتے ہیں ؎
تصور میں بھی جب ہوتا ہوں میں شہرِ پیمبرؐ میں
مری اکھڑی ہوئی سانسوں کو ملتے ہیں نئے موسم
مجھے زندہ رکھا ہے شہرِ طیبہ کی ہواؤں نے
امام بوصیری رحمتہ اللہ علیہ کے حوالے سے چادرِ شفا کی التجا بھی اس مجموعے میں مختلف لہجوں میں کی گئی ہے ؎
چادرِ رحمت کسی شب خواب میں مجھ کو ملے
آپؐ کے، یا سیّدیؐ! میں بھی قلم کاروں میں ہوں
ثلاثی بھی ریاض بھرپور لکھتے ہیں۔ بیماری، زخم اور شفا کا مضمون اس ہیئت میں بھی در آیا ہے ؎
یانبیؐ، آبِ شفا، خاکِ شفا، حرفِ شفا
یانبیؐ، ابرِ شفا کی آج بھی برسات ہو
یانبیؐ، سوکھی پڑی ہے رہگذارِ زندگی
شدید نقاہت اور بیماری کے مسائل میں جاگتی آنکھوں کے ساتھ درِ حبیبؐ پر ایسی حاضری حضوری نہیں تو اور کیا ہے۔ بیمار تو وہ ہیں مگر لگتا ہے وہ بظاہر بیمار ہیں جبکہ زخموں کے اور نقاہت اور کمزوری کے تذکرے ان کی کیفیاتِ حضوری کا تخلیقی اظہار ہیں۔اس پس منظر میں یہ شعر بھی ملاحظہ فرمائیں ؎
خیال اتنا رہے جھوٹی اَنا کے ہر پجاری کو
مدینے میں پہنچ جاتی ہے لمحوں میں خبر میری
جسمانی بیماری ہو ، ذہنی اذیت کا کوئی معاملہ ہو یا احساس کی بھٹی کی تپش نے سوزِ دروں کو جلا دے دی ہو، بہر صورت نبیؐ مکرم کے شاعر کا رابطہ درِ مصطفیٰؐ سے ہے جہاں سے مژدۂ کرم آ جاتا ہے اور یہ معاملہ لمحوں میں طے ہو جاتا ہے۔ علامہ اقبال نے زبورِ عجم میں لکھا ہے ؎
منزلِ عشق بسے دور و دراز است ولے
طے شود جادۂ صد سالہ بآہے گاہے
کیفِ حضوری کی یہی تو سحر انگیزی ہے جو عام طور پر ماورائے ادراک لگتی ہے۔ ریاض اُن خوش نصیبوں میں سے ہیں جنہیں یہ نعمتِ کرم میسر ہے۔کوئی مواصلاتی نظام ضرور ہے جس کے تحت ریاض پیغام بھیجتے بھی ہیں اور وصول بھی کرتے ہیں۔21 اشعار پر مشتمل ایک نعت میں سرورِ عالمؐ کی بارگاہ بیکس پناہ میں آپؐ کے قاصد کے آنے کی التجا کر رہے ہیں ؎
دھنک کے سات رنگوں کو اٹھا لائے فضاؤں سے
ورق پر گنبدِ خضرا بنائے آپؐ کا قاصد
ہزاروں عکس روشن روضۂ اطہر کے ہیں اِن میں
مرے اشکوں کی تصویریں بنائے آپؐ کا قاصد
بتائے حال طیبہ میں کھجوروں کے درختوں کا
مجھے طیبہ کی سب خبریں سنائے آپؐ کا قاصد
حضوری کی خبر دے میرے بچوں کو، کنیزوں کو
مقدّر کے ستاروں کو جگائے آپؐ کا قاصد
تمہارا بھی اقامہ لے کے آیا ہوں مدینے سے
مرے آنگن کی چڑیوں کو بتائے آپؐ کا قاصد
نبی جیؐ التجا ہے آپؐ کے ادنیٰ سے شاعر کی
شفایابی کا مژدہ لے کے آئے آپؐ کا قاصد
ریاض اس طرح نبی کریم ؐ کی بارگاہ اقدس میں مژدۂ شفا کی التجا کر رہے ہیں۔سچ تو
یہ ہے کہ ریاض کے مضامینِ نعت کا احاطہ کرنا ایک انتہائی مشقت طلب کام ہے۔
ریاض کی نعت کا ایک خاصہ ادبِ رسولؐ ہے۔ ان کے ہر مجموعۂ نعت میں ادب کے حوالے سے
انتہائی ریشمی لہجے میں ادبِ مصطفیٰؐ کے حوالے سے خوشبوؤں سے بُنے ہوئے اشعار ملتے
ہیں ۔ ’’برستی آنکھو! خیال رکھنا ‘‘ تو ادب کو موضوع بنا کر تخلیق کی گئی ہے۔ اگر ادب
نہ ہوتا تو ریاض نعت گو نہ ہوتے۔ ان کی نعت کے سوتے ادب ہی سے پھوٹتے ہیں۔ ان کی نعت
شروع سے آخر تک ادبِ مصطفیٰ کی ان کیفیات سے کشید کی گئی ہے جنہیں اصلِ ایمان کہا جاتا
ہے اور ریاض اس رمز کے مہا عارف ہیں۔اپنے پہلے نعتیہ مجموعے ’’زرِ معتبر‘‘ کی ایک نعت
میں لکھتے ہیں ؎
برستی آنکھو! خیال رکھنا بہت ہے نازک فضائے طیبہ
مدینہ آئے تو چپکے چپکے درود پڑھنا سلام کرنا
ریاضؔ جس دن، ریاضؔ جس شب، ثنا کے پھولوں سے گھر نہ مہکے
ریاضؔ وہ دن عذاب لکھنا، ریاضؔ وہ شب حرام کرنا
’’متاعِ قلم‘‘ کی ایک نعت میں یوں گویا ہیں ؎
یہ اضطراب بھی کہیں سوئِ ادب نہ ہو
شہرِ نبیؐ قریب ہے اے دل سنبھل ذرا
’’تحدیثِ نعمت‘‘ میں توادب کے معاملے میں دل گرفتہ ہو جاتے ہیں اورمارے بے ادبی کے خوف کے، لکھتے ہیں ؎
کب ہمارے بس میں تھے آداب طیبہ کے ریاضؔ
ہم مدینے سے پلٹ آئے بہت اچھا کیا
یہ ہیں وہ ریاض حسین چودھری جو بسترِ مرگ پر بھی ادبِ رسول فراموش نہیں کر پاتے اور اپنے سولہویں مجموعۂ نعت کا نام ہی رکھتے ہیں : ’’برستی آنکھو! خیال رکھنا‘‘۔ اس کتاب میں وہ ایک طویل نعت لکھتے ہیں ؎
مدینے کی رہگذر پہ کالی گھٹاؤ! برسو، بڑے ادب سے
درود پڑھتی ہوئی ہواؤ! زمیں پر اترو، بڑے ادب سے
قلم کی دولت عطا ہوئی ہے، سخنورو خوش نصیب ہو تم
مرے پیمبرؐ کا نامِ نامی، دلوں پر لکھو، بڑے ادب سے
مری غزل کی حسین کلیو! ورق ورق پر دھمال ڈالو
بیاضِ نعتِ حضورؐ، پلکوں سے جھک کے کھولو، بڑے ادب سے
یہاں تو سورج بھی ہاتھ باندھے کھڑا ہے کب سے، خدا ہی جانے
درِ نبیؐ پر چراغ اپنے سجا دو اشکو، بڑے ادب سے
یہ خلدِ طیبہ کے رتجگے ہیں، یہ نور و نکہت کے سلسلے ہیں
لگا کے تلووں سے اپنی آنکھیں، یہاں سے گذرو، بڑے ادب سے
ہواؤ! مدحت کی وادیوں میں، خوشی خوشی تم گلاب بانٹو
سلام بھیجو درِ نبیؐ پر، اے چاند راتو! بڑے ادب سے
چلو کہ نظریں جھکی ہوئی ہوں، چلو کہ سانسیں رکی ہوئی ہوں
وفورِ نعتِ نبیؐ کے دلکش گلاب جھونکو! بڑے ادب سے
ادب کا ہے یہ مقامِ عالی، وہ سامنے ہے سنہری جالی
دیارِ طیبہ میں ہمنشینو! آہستہ بولو، بڑے ادب سے
ریاضؔ اپنے من میں ادبِ رسول کی یہ جنت بسا کراپنے وفورِ نعت سے فضاؤں اور خلاؤں میں نورِ مدحت کی کہکشائیں سجاتے رہے۔وہ ازل سے سرکار کی چوکھٹ پر غرقِ ادب ہیں۔ ادب فردوسِ مدحت کی بلند ترین منزل ہے اور ریاض اسی منزل کے باسی ہیں۔ ؎
رات دن اُس شہر کے اوصاف کرتا ہوں رقم
رات دن اُس شہر کے آداب میں رہتا ہوں مَیں
جنوری 2013 ء میں چھپنے والا ان کا آٹھواں نعتیہ مجموعۂ کلام ’’غزل کاسہ بکف‘‘ ہر لحاظ سے ریاضؔ کا ایک عظیم فن پارہ ہے۔اس میں بھی اکثر مقامات پر ان کی کیفیت ادبِ رسولؐ کے مظاہر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ایک 24 اشعار پرمشتمل نعت جس کی ردیف ہے ’’ادب ادب‘‘ اس ضمن میں پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے ؎
لکھنے لگا ہوں نعت رسالت مآب کی
میرے قلم کو چومتے لفظو! ادب ادب
اُس قریۂ جمال کے ذرے ہیں آفتاب
اے آسماں کے چاند ستارو! ادب ادب
تشنہ لبی کا ہو گا مداوا ابھی، ریاضؔ
اسمِ حضورؐ لو، مگر ہونٹو! ادب ادب
ریاضؔ ’’روشنی‘‘ کے شاعر ہیں۔ روشنی پر ان کے کلام میں ان گنت تخلیقات ملتی ہیں۔ اس موضوع پر بہت لکھا جا سکتا ہے۔ یہاں صرف یہ کہنا مقصود ہے کہ روشنی پر وہ جتنا بھی لکھتے ہیں اس کا خمیر ادب سے اٹھتا ہے۔ اسی کتاب میں روشنی کی ردیف کے ساتھ انہوں نے ایک سہ نعتیہ لکھا ہے جسے پڑھ کر بیخودی کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں ؎
نسبت مرے حضور کی صد رشکِ آفتاب
حسنِ ادب کا رمز و کنایہ بھی روشنی
جو روشنی فصیل ہے شہرِ حضورؐ کی
اُس روشنی کو دیکھنے والا بھی روشنی
زندہ رہے خلش کسی صورت ضمیر کی
اندر کی روشنی کا ہے سایہ بھی روشنی
رہتی ہے ہر گھڑی درِ اقدس کے آس پاس
کلکِ ریاضؔ کا ہے نصیبہ بھی روشنی
یوں ریاض ادب میں گندھی ہوئی نعت لکھتے ہیں اور ادب کا یہ سماں ان کے جملہ 23 نعتیہ
مجموعوں کو محیط ہے۔’’برستی آنکھو! خیال رکھنا‘‘ اس حوالے سے خصوصیت کی حامل ہے۔
منصبِ ثنا گوئی تو وہ اپنی روح میں ساتھ لے کے آئے۔ لکھنے لگے تو مدحت نگاری کا تسلسل
مانگتے رہے ؎
مشامِ جاں تریؐ خوشبو سے مہکا ہی رہے آقاؐ
ترا شاعر ثنا کے پھول چنتا ہی رہے آقاؐ
میں اٹھ کر رات کے پچھلے پہر لکھتا رہوں نعتیں
چراغِ دیدۂ نمناک جلتا ہی رہے آقاؐ
ریاضؔ کا چراغِ دیدۂ نمناک عمر بھر جلتا رہا اور پھر انہیںمعرفتِ ذات نصیب ہوئی ؎
عالمِ ارواح سے پھولوں میں ہوں، کلیوں میں ہوں
کلکِ مدحت سے نکلتے لب کشا رنگوں میں ہوں
جس پہ ہر لمحہ برستے ہیں فضاؤں سے گلاب
میں اُسی حرفِ سخن کے ریشمی لہجوں میں ہوں
موت کیا میرا بگاڑے گی سرِ بزمِ حیات
میں چمن زارِ ثنا کی اَن گنت صدیوں میں ہوں
اسی کتاب میں آگے چل کر مدحت نگاری کو وہ اپنی پہچان قرار دے رہے ہیں ؎
ثنائے مرسلِ آخرؐ مری پہچان ٹھہری ہے
مرے شہرِ قلم میں ہے زرِ حرفِ اذاں رقصاں
آج جب ہم ریاض کا نام ہی لیتے ہیں تو ذہن میں ایک ایسے نعت نگار کا تصور ابھر کر سامنے آ جاتا ہے جس نے عمر بھر صرف نعت لکھی اور ادبِ مصطفیٰؐ کا پرچار کرتے ہوئے لکھی۔ اب جب وہ ہم میں نہیں رہے تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ان کی یاد سے یادِ مصطفیٰ کی رم جھم برسنے لگتی ہے۔ اُن کی بات کریں تو نعت کے بغیربن نہیں پاتی۔ ان کا ذکر کریں توہونٹوں پر ذکر مصطفیٰ کی کلیاں مہکنے لگتی ہیں۔وہ تو 1985 سے 1995 تک کے لکھے گئے پہلے مجموعہ کلام ’’زرِ معتبر‘‘ ہی میں اپنی پہچان کے قضیئے سے یہ کہہ کر آزاد ہو گئے تھے ؎
مجھے خود اپنے تشخص کی کیا ضرورت ہے
تراؐ حوالہ ہی سب سے بڑا حوالہ ہے
اور آج ہم اس برگزیدہ حوالے کے بغیر ریاض کی بات ہی نہیں کر سکتے۔ربِّ کریم نے انہیں یہ منصب عطا کیا۔ وہ فردوسِ مدحت کی منزلِ ادب کے مکیں ٹھہرے اوراسی حوالے کے سرور میں کھوئے ہوئے وہ
اس یقین کے ساتھ دنیا سے رخصت ہو گئے ؎
مجھے معلوم ہے بس موسمِ صلِ علیٰ ہو گا
مجھے معلوم ہے بخشش کا پروانہ عطا ہو گا
مجھے معلوم ہے سرکارِ دو عالمؐ کی نسبت سے
لحد کی شامِ مدحت میں ابد تک رتجگا ہو گا
شیخ عبدالعزیز دباغ