التجائے امت: خاکِ شفا کی چادرِ رحمت کا ہے سوال- برستی آنکهو خیال رکهنا (2018)
ربِّ عظیم، ربِّ قلم، ربِّ ذوالجلال
گم ہو چکے ہیں ملتِ بیضا کے ماہ و سال
امت ترے نبیؐ کی حصارِ قضا میں ہے
پھیلا ہوا ہے چاروں طرف سازشوں کا جال
کب ہو گا چاند رات کا منظر ہمیں نصیب
کب تک محیط سر پہ رہے گی شبِ زوال
مجھ کو ہلالِ عید بھی پہچانتا نہیں
یارب! مرے تشخّصِ ملّی کو کر بحال
احوال اس کے پوچھنا بادِ صبا! ضرور
رہتا ہے شہرِ ہادیٔ کونینؐ میں خیال
خاکِ در حضورؐ کا مجھ کو کفن ملے
اُس شہرِ دلنواز کی کوئی نہیں مثال
زخمی بدن ہے، روح بھی گھائل ہے یاخدا!
خاکِ شفا کی چادرِ رحمت کا ہے سوال
آہستہ سے اتر مرے گھر میں ہوائے شب
میرے دیے کو رہتا ہے بجھنے کا احتمال
امواجِ انحراف سے کب تک لڑوں گا میں
گردابِ اضطراب سے یارب مجھے نکال
تیرے حضور جھکنے کی لذت کا کیا کہوں
سجدے سے سر اٹھانے کی میری کہاں مجال
مولا! ریاضؔ شہرِ قلم میں ہے اجنبی
اِس کو عطا ہو کاسۂ فن میں زرِ جمال