آرزوئے قلم: مرے شہروں کے جنگل میں کوئی تو ضابطہ برسے- برستی آنکهو خیال رکهنا (2018)
پسِ دیوار و در ابرِ کرم کی انتہا برسے
مرے زخمی بدن پر مستقل آبِ شفا برسے
جوارِ گنبدِ خضرا کے مکتب سے قلم مانگو
کتابِ آرزو کے ہر ورق پر حاشیہ برسے
دعاؤں کو قبولیت کا دیتا ہے شرف تو ہی
مرے تشنہ لبوں پر آبجوئے التجا برسے
غلامی کا سبق از بر رہے شام و سحر مجھ کو
غلامی کی گھٹا خلدِ بریں میں یاخدا برسے
تری رحمت کے دروازے کھلیں ہم بے نواؤں پر
مصلّے پر گریں بوندیں، زرِ شامِ دعا برسے
خدائے روز و شب سے التجا ہے اُن کے شاعر کی
سخن پر ہر گھڑی خاکِ درِ خیر الواریٰ برسے
ازل سے میں غلامی کے بجا آداب لاتا ہوں
سرِ محشر مری بخشش کا سامانِ بقا برسے
سکونِ قلب کی دولت ملے ہنگامِ ہستی میں
مرے پیارے وطن پر موسمِ لطف و عطا برسے
مہذب ساعتوں کو نسلِ آدم کا مقدّر کر
مرے مردہ تمدّن پر مدینے کی فضا برسے
مدینے سے صبا جب لوٹ کر آئی تو امشب بھی
مرے آنگن کے پیڑوں پر پر و بالِ ہما برسے
یہاں قانون طاقت کی چٹانوں کا مقلّد ہے
مرے شہروں کے جنگل میں کوئی تو ضابطہ برسے
شبِ ابہام سے الجھے ریاضِ بے نوا کب تک
کبھی رم جھم کے موسم میں کلامِ لب کشا برسے