التجائے شاعر: مرے شہرِ قلم کو خوشبوئے غارِ حرا لا دے- برستی آنکهو خیال رکهنا (2018)
صبا! طیبہ کے نخلستان سے آبِ شفا لا دے
مرے زخمی بدن کے واسطے مجھ کو دوا لا دے
قیادت منحرف چہروں کے جنگل میں ہے آ نکلی
اسے شہرِ مدینہ سے نبی کے نقشِ پا لا دے
مواجھے میں سنہری جالیوں کو چوم کر امشب
قلم کی چشمِ پُرنم کے چراغِ التجا لا دے
فساد و فتنہ و شر کے محافظ لوٹ آئے ہیں
مری امّی کے ہونٹوں سے جو نکلی تھی دعا لا دے
مری اکھڑی ہوئی سانسوں نے خوشبو کو صدا دی ہے
جوارِ گنبدِ خضرا کی پھر آب و ہوا لا دے
اندھیرا ہی اندھیرا چھا رہا ہے بند گلیوں میں
غبارِ راہِ طیبہ کے چراغوں کی ضیا لا دے
خلا کی وسعتیں بھر دوں گا لکھ لکھ کر ثنا اُنؐ کی
تخیل کے پرندے اُڑ، مجھے کلکِ رضا لا دے
اِسے ہر زائرِ طیبہ کی راہوں میں بچھا دوں گا
اٹھا کر قصرِ شاہی سے مجھے میری انا لا دے
در و دیوار پر رکھتا رہوں گا عمر بھر کلیاں
مرے شہرِ قلم کو خوشبوئے غارِ حرا لا دے
درودِ مصطفیٰؐ پڑھتے ہوئے لمحوں کا کیا کہنا
تسَلسُل سے ثنا کرتے ہوئے بالِ ہما لا دے
مرے چہرے پہ بھی دکھ کی خراشیں ہی خراشیں ہیں
فضاؤں میں کھلی ہے جو کتابِ ارتقا لا دے
ہوائے شر چلے تو کانپ اٹھتا ہے بدن میرا
مجھے طائف کے بازاروں سے جا کر حوصلہ لا دے
ہیں شامل آسماں کی سسکیاں اس کی صداؤں میں
جلے خیموں کے پس منظر کی ریگِ کربلا لا دے
برہنہ سر کھڑا ہے چلچلاتی دھوپ میں کب سے
ریاضِ خستہ جاں کو خاکِ طیبہ کی ردا لا دے