آہنی دیوار میں افکار کا روزن کھُلا- برستی آنکهو خیال رکهنا (2018)
ایک میں ہی تو نہیں اسمِ محمدؐ پر فدا
ذرّہ ذرّہ ہے ازل کے دن سے مصروفِ ثنا
ہاتھ میں دے کر قلم ہاتف نے تاکیداً کہا
ہو سخن کے دیس میں بس آپؐ کا ہی تذکرہ
خالقِ کون و مکاں کی آپؐ تخلیقِ عظیم
آپؐ ہیں اﷲ کے فضل و کرم کی انتہا
آسماں والا ہے ہر مخلوق کا روزی رساں
زندگی کا مرحلہ ہے کس قدر آسان سا
آپؐ سجدہ ریز محرابِ یقیں میں ہیں حضورؐ
دست بستہ آپؐ کے دربار میں ارض و سما
آپؐ سجدہ ریز معبودِ حقیقی کے حضور
دست بستہ آپؐ کے در پر رہے ارض و سما
آپؐ ہی ہیں، آپؐ ہی ہیں، ہادیٔ جنّ و بشر
آپؐ ہی ہیں، آپؐ ہی ہیں، ہر صدی کے رہنما
آبروئے انس و جاں ہے آپؐ کا حسن و جمال
نقشِ پا ہے آپؐ کا ہر آئینے کا آئینہ
آپؐ کے دیدار کا پیاسا ہوں یا خیرالبشرؐ
آسرا ہے آپؐ کے اک سایۂ دیوار کا
ڈوبا رہتا ہوں ندامت کے پسینے میں حضورؐ
حوضِ کوثر پر کروں گا کس طرح میں سامنا
آپؐ کے در پر میں لایا ہوں غلامی کے چراغ
اِن چراغوں نے لکھا ہے روز و شب کا حاشیہ
انخلا در انخلا اپنا مقدّر تو نہیں
پھیلتا ہی جا رہا ہے بے بسی کا دائرہ
خوشبوئے خلدِ مدینہ سے معطر ہے قلم
نامِ شہرِ مصطفیؐ ہاتھوں پہ ہے لکھا ہوا
میں مدینے میں غلامی کی ردا اوڑھے ہوئے
اپنے بچپن سے بڑھاپے تک ہوں محوِ التجا
یاخدا! رستہ دکھا شہرِ پیمبرؐ کا اِسے
مصر کے بازار میں بھٹکا ہوا ہے قافلہ
سب عطائیں ہیں خدا کی آپؐ کے سامان میں
جو بھی مانگا ہے مجھے وہ آپؐ کے در سے ملا
آپؐ کے حسنِ بلاغت کی بدولت آج بھی
آہنی دیوار میں افکار کا روزن کھُلا
جن کے دامن سے ہیں وابستہ مری نسلیں تمام
بعدِ محشر بھی رہے قائم اُنہیؐ سے رابطہ
حکمت و دانش، شعور و آگہی، علم و ہنر
مکتبِ خیرالبشرؐ کا ہے نصابِ ارتقا
روشنی اس کی کبھی مدھم نہیں ہوتی ریاضؔ
خاکِ طیبہ سے اٹھا لایا ہوں مٹی کا دیا