روشنی کا منتظر ہے آج کا انسان بھی- برستی آنکهو خیال رکهنا (2018)
وَجد کے عالم میں ہے میری شبِ تشنہ لبی
دے مجھے اُنؐ کی غلامی کا شعورِ دائمی
آج بھی ہے جو مری ہر سانس میں محوِ درود
خوشبوئے حرفِ ثنا ہے وہ گزشتہ سال کی
اِس برس بھی خاکِ طیبہ کو کہوں خلد بریں
اِس برس بھی پھول لکھے میری آنکھوں کی نمی
آپؐ کی دہلیز پر اے ہادیٔ کون و مکاں
عجز کی دستار میں لپٹا ہوا ہے آدمی
لمحہ لمحہ کہکہشاؤں کا گلی میں ہے نزول
میز پر یارب! رہے شہرِ ادب کی رشنی
رتجگوں کی آبرو ہے آپؐ کا ذکرِ جمیل
قریۂ جاں میں سمٹ آئی بہارِ زندگی
سجدہ ریزی میں رہیں مصروف مدحت کے چراغ
چل کے پلکوں پر میں دوں طیبہ نگر میں حاضری
کیا نہیں مجھ کو ملا آقاؐ کے قدموں کے طفیل
رہگذر جو بھی ملی مجھ کو ملی پھولوں بھری
ساحلِ امید پر ہے باد و باراں کا فشار
امتِ مرحوم کی سب کشتیاں ہیں کاغذی
اس کے افکارِ پریشاں پر کرم، آقا حضورؐ
روشنی کا منتظر ہے آج کا انسان بھی
نسلِ آدم ہے جہالت کے اندھیروں کی اسیر
نسلِ آدم کو ملیں آقاؐ حروفِ آگہی
جل رہے ہیں امنِ عالم کے علم، آقاؐ، تمام
شبنمی چادر میں بھی جلتی ہوئی ہے آگ سی
بھول بیٹھی ہیں ہوائیں راستہ سیدھا، حضورؐ
ذہنِ انسانی میں ہے بس سرکشی ہی سرکشی
کن اذیّت ناک لمحوں میں ہے شاعر آپؐ کا
چشمِ رحمت یانبیؐ، یاسیّدیؐ، یامرشدیؐ
سسکیاں اٹکی ہوئی ہیں میری سانسوں میں، حضورؐ
رات اتری ہے مرے بستر پہ شاید آخری
میں نے دیکھا ہے لحد کے گوشے گوشے میں ریاضؔ
کلکِ مدحت تیرگی سے برسرِ پیکار تھی
ایک اک ساعت جو گذری ہے مدینے میں ریاضؔ
دلبری ہی دلبری ہے، دلکشی ہی دلکشی