پیشِ نظر میں نعتِ شہِ مرسلاں کے پھول- زر معتبر (1995)
پیشِ نظر ہیں نعتِ شہِ مرسلاں کے پھُول
شاعر ہوں نذر کرتا ہوں نطق وبیاں کے پھُول
انورِ مُصطفیٰ کے حوالے سے اے خُدا
شاخِ صَدا پہ کھِلتے رہیں کہکشاں کے پھُول
جلتی رہیں حریمِ محبّت میں مشعلیں
ارضِ دُعا پہ گرِتے رہیں آـسماں کے پھُول
جھونکا خنک ہَوا کا اِدھر بھی مِرے نبیؐ
مُرجھا گئے ہیں اب تو مری داستاں کے پھُول
شیشہ چٹخ نہ جائے مِرے جسم کا کہیں
مُجھ کو عطا ہوں سنگِ درِ آستاں کے پھُول
رہتی ہے ہر گھڑی مجھے طیبہ کی جستجو
چُنتا نہیں ہوں مَیں کبھی سود و زیاں کے پھول
رخصت کے وقت بھی مِرے ہونٹوں پہ نعت ہو
جبریلؑ لے کے آئے ہوں باغِ جناں کے پھُول
اُس در کی چاکری سے مجھے بھی کبھی ملیں
دامانِ آرزُو میں زرِ جاوداں کے پھُول
کتنا وہ مشکبار سفر تھا سرِ فلک
سدرہ کی رہگذر میں کِھلے لامکاں کے پھُول
منظر بجُھا بُجھا سا ہے راہِ حیات کا
لاؤ کہیں سے گردِ رہِ کارواں کے پھُول
آخر ملے گا اذنِ حضُوری مجھے ریاضؔ
مشکور ہوں گے ایک دن اپنی فغاں کے پھُول