کتابِ چشم تر ہم نے مدینے میں کہیں رکھ دی- برستی آنکهو خیال رکهنا (2018)
قلم نے ہر ورق کو چوم کر اِس پر جبیں رکھ دی
کتابِ چشمِ تر ہم نے مدینے میں کہیں رکھ دی
خدائے آسماں نے اُنؐ کی آمد سے بہت پہلے
عرب کے ریگ زاروں میں بہارِ دلنشین رکھ دی
خدائے روز و شب نے ابتدائے آفرنیش سے
ہر اک مخلوق میں حُبِّ رسولِ آخریںؐ رکھ دی
خدا کا شکر واجب ہے کہ اُس نے شہرِ مدحت میں
مقدّر میں مرے پھولوں بھری شامِ حسیں رکھ دی
کہ بس مطلوب ہے تیری رضا ہی، قادرِ مطلق!
اٹھا کر اک طرف ہم نے بھی ہے خلدِ بریں رکھ دی
فقط ہے یاد اتنا عالمِ ارواح میں ہم نے
حروفِ لا الہ پڑھ کر تھی بنیادِ یقیں رکھ دی
جہاں بھی گنبدِ خضرا کا عکسِ دلربا دیکھا
بساطِ آرزو، یامصطفٰےؐ، ہم نے وہیں رکھ دی
ہر اک دھڑکن نے ہر حرفِ ثنا کو بارہا چوما
بیاضِ نعت ہم نے کھول کر دل کے قریں رکھ دی
وہی ہے کیف کا عالم، وہی ہیں وجد کی گھڑیاں
غلاموں نے سرِ محفل فضائے عنبریں رکھ دی
کتابِ جاوداں میں خالقِ تخلیقِ اوّل نے
اطاعت لازمی اُنؐ کی برائے مرسلیں رکھ دی
سنو، کردار و سیرت میں وہی اوّل، وہی آخر
افق پر اُس نے دستارِ شفیع المذنبیںؐ رکھ دی
خدائے برگزیدہ نے ازل کی شامِ دلکش میں
دل و جاں میں ولائے رحمۃ اللعالمیںؐ رکھ دی
ریاضؔ اپنا یہی اعزاز کم ہے بزمِ ہستی میں!
لبِ تشنہ کے دامن میں ثنائے شاہِ دیں رکھ دی