کب ہوا میرا سخن حرفِِ اذاں سے باہر- برستی آنکهو خیال رکهنا (2018)
مدحتِ میرِ اممؐ نطق و بیاں سے باہر
آپؐ کی عظمت و رفعت ہے گماں سے باہر
پھول لکھنے پہ ہے مامور ازل سے خوشبو
کلکِ مدحت ہے مری دستِ خزاں سے باہر
سب کے سب حاضرِ دربار ہیں امشب آقاؐ
ایک بھی آنسو نہیں میری فغاں سے باہر
ہر بھنور شہرِ پیمبرؐ کا اقامہ لائے
میری کشتی تو نہیں آبِ رواں سے باہر
اس قدر چاند ستارے مرے دامن میں گرے
یہ عطائیں ہیں مرے وہم و گماں سے باہر
جس کے سینے میں نہیں عشقِ پیمبرؐ کا ظہور
ایسا بد بخت ہوا دونوں جہاں سے باہر
مَیں غلامی کی سند جاں سے بھی رکھتا ہوں عزیز
نسبتِ پاک ہے ہر سود و زیاں سے باہر
ہمنوا! خوفِ مسلسل میں رہو گے کب تک
ایک لمحہ بھی نہیں اُنؐ کی اماں سے باہر
آپؐ کی شان سے ہر لفظ فروتر ہے حضورؐ
آپؐ کی شان ہے گفتارِ زباں سے باہر
ایک شاعر ہوں میں سلطانِ مدینہ کا ریاضؔ
کب ہوا میرا سخن حرفِ اذاں سے باہر