لے کے آیا ہوں درِ اقدس پہ زخموں کے چراغ- برستی آنکهو خیال رکهنا (2018)
سر بسجدہ ہر مصّلے پر ہیں اشکوں کے چراغ
جلتے رہتے ہیں حریمِ شب میں نغموں کے چراغ
جھولیاں بھر بھر کے لائیں گے شفایابی کے پھول
عرش پر پہنچے ہیں امشب میری آہوں کے چراغ
میں روانہ ہو رہا ہوں خلدِ مکہ کی طرف
بادِ گلشن نے اٹھا رکھے ہیں سجدوں کے چراغ
یانبیؐ، اذنِ سفر خاکِ شفا کو دیجئے
منتظر ہیں گھر کے دروازے پہ آنکھوں کے چراغ
ساری مخلوقات کے سردار ہیں میرے حضورؐ
بعدِ محشر بھی جلیں گے اُنؐ کے قدموں کے چراغ
میری سانسوں کی تپش شامل ہے اِن میں یانبیؐ
آپؐ کے در پر میں لایا ہوں چراغوں کے چراغ
دشت و صحرائے عرب کے گلشنِ بے خار میں
ڈھونڈتا پھرتا ہوں میں اپنے نصیبوں کے چراغ
تا ابد برسے چمن پر لالہ و گل کی بہار
تا ابد مہکے رہیں سرکارؐ پھولوں کے چراغ
آپؐ کے کردار و سیرت سے معطّر ہے فضا
پھول بانٹیں گے ہواؤں میں دریچوں کے چراغ
ہر ورق پر گفتگو ہو گی حروفِ نور سے
ہر حدیثِ پاک میں پاؤ گے نعتوں کے چراغ
تا ابد مہتاب ابھریں گے نقوشِ پاک سے
تا ابد روشن رہیں گے اُنؐ کی راہوں گے چراغ
آپؐ کے نقشِ کفِ پا کی بدولت، یانبیؐ
بجھ نہ پائیں حشر تک بستی کی گلیوں کے چراغ
روشنی پھیلے خلا کی وسعتوں میں ہر طرف
تا ابد بکھریں فضا میں میرے بچوّں کے چراغ
تختیوں پر لکھ کے لائے ہیں دعائیں اَن گنت
عاجز و مسکین بندوں کے، غریبوں کے چراغ
ہر کٹورے میں گرے آبِ شفا کی آبجو
لے کے آیا ہوں درِ اقدس پہ زخموں کے چراغ
میرے اسلوبِ ثنا کو لے اڑے خوشبو، ریاضؔ
اور یوں تقسیم کردوں زندہ لہجوں کے چراغ