صبا شہرِ مدینہ کی حسیں گلیوں کی جوگن ہے- برستی آنکهو خیال رکهنا (2018)

سخن میرا فقط جو قریۂ مدحت کا درپن ہے
مرا سرمایہ جاں ہے، مرے اشکوں کا مخزن ہے

اُنہیؐ کے نقشِ پا میں ارتقا کی آخری سیڑھی
ثقافت سب ہماری آپؐ کے قدموں کا دھوون ہے

فضاؤں میں، گھٹاؤں میں، خلا کی انتہاؤں میں
ازل ہی سے مرے سرکارؐ کی رحمت کا ساون ہے

مرے بچوں کے لب پر ہے ثنا اُنؐ کی، حقیقت میں
ردائے عشق میں لپٹا ہوا یہ میرا بچپن ہے

قلم کی آنکھ سے ٹپکے ہوئے آنسو کہاں جاتے
کتابِ علم میں بھیگا ہوا لفظوں کا دامن ہے

فضائے وادیٔ مدحت میں جگنو ہیں غلامی کے
مری حدِ نگہ تک نعت کا گلشن ہی گلشن ہے

تصوُّر میں چراغِ التجا رکھتا ہوں چوکھٹ پر
درِ آقاؐ تمنا کے ابابیلوں کا مسکن ہے

مجھے اوجِ ثریا کی تمنا کس لئے ہو گی
مقدّر میں مرے طیبہ کے جب زائر کی اترن ہے

جدھر دیکھو اُدھر انوار بکھرے ہیں مدینے میں
جدھر دیکھو اُدھر میرے پیمبرؐ کا ہی چانن ہے

یہ بڑھ کر چومتی رہتی ہے ہر زائر کے قدموں کو
صبا شہرِ مدینہ کی حسیں گلیوں کی جوگن ہے

درودِ مصطفیٰؐ وردِ زبان رکھتی ہے ہر لمحہ
ادب سے رقص کے عالم میں میرے دل کی دھڑکن ہے

کوئی موسم بھی ہو، اُس میں ثنا کے پھول کھلتے ہیں
ازل سے تا ابد کلکِ ثنا میری، سہاگن ہے

تجھے اذنِ ثنائے مصطفیٰؐ حاصل ہوا اِمشب
ریاضِؔ خوشنوا پھولوں بھرا یہ تیرا آنگن ہے