جود و کرم کا سرمدی اک بحرِ بے کنار- زر معتبر (1995)
جود و کرم کا سرمدی اک بحرِ بے کنار
وہ آدمی ہے ملکِ محبت کا تاجدار
میری لُغت میں اور کوئی نام ہی نہیں
اُس کی ثنا ہی شہرِ صدا کا ہے افتخار
رعنائی غزل بھی اُسی گھر کی ہے کنیز
اُس کو ہے میرے حرفِ دُعا پر بھی اختیار
قلبِ سیہ پہ درج ہیں سَب روسیاہیاں
رہتا ہوں اپنی ذات کے مقتل میں شرمسار
سَر پر اُسی کے تاجِ رسالت ازل سے ہے
تسلیم ہر صدی کو اُسی کا ہے اقتدار
اُترن اِسے بھی نقشِ کفِ پا کی ہو عطا
اُترا نہیں ہے دوشِ ہوا سے ابھی غبار
منسوخ کر کے جبر و تشدد کے فیصلے
اتنا کہا کہ بندہ ہو ممنونِ کردگار
میں جس مقام پر سے بھی دیکھوں اُسے ریاضؔ
وہ سب سے سر بلند ہے وہ سب سے ذی وقار