مجھے مدحت نگاری کے کئی محراب و منبر دے- برستی آنکهو خیال رکهنا (2018)
خدائے بحر و بر! عشقِ محمدؐ کے سمندر دے
چراغِ آرزو مجھ کو ستاروں کے برابر دے
فصیلِ قَصْرِ مدحت مَیں کروں تعمیر پھولوں سے
مدینے کے پہاڑوں کا مقدّس سنگِ مرمر دے
مجھے توفیق دے شہرِ نبیؐ میں سانس لینے کی
درودِ مصطفیٰؐ پڑھتی ہوئی شامِ منّور دے
ستارے آسمانوں سے اتر کر اِن کے لب چومیں
مرے لوح و قلم کو یاخدا! ایسا مقدّر دے
نگار و نقش سے بھر دے سخن کا دامنِ دلکش
کتابِ دیدہ و دل کے ورق مولا! مصوّر دے
مجھے اعزاز دے تو آخرِ شب سجدہ ریزی کا
ردائے اشک میں بھیگا ہوا دستِ سخنور دے
مضافاتِ مدینہ میں بسے بستی غلاموں کی
مرے ہر خواب کی تعبیر میں صبحِ معطّر دے
در و دیوارِ طیبہ کے خنک موسم کی رم جھم میں
مجھے رعنائی و زیبائیِ شہرِ گلِ تر دے
اجازت دے فضائے وادیٔ بطحا میں اڑنے کی
زرِ خاکِ مدینہ کے تحائف مجھ کو اکثر دے
ترے محبوبؐ کا شاعر بھی ٹھہرے معتبر، یارب!
مرے ہمراہیوں میں سب مدینے کے گداگر دے
حروفِ نو سے گونج اٹھیں خلا کی وسعتیں یارب!
مجھے مدحت نگاری کے کئی محراب و منبر دے
بیابانوں سے بھی آبِ کرم کی آبجو گذرے
جو تشنہ لب ہیں صحرا میں انہیں تو جامِ کوثر دے
مَیں شامِ ہجر کی پرچھائیاں ہی گنتا رہتا ہوں
مجھے پھولوں کی سنگت دے، مجھے خوشبو کے پیکر دے
سخن کا در کھُلا رہتا ہے شہرِ نور و نکہت میں
خدائے مصطفیٰؐ! مجھ کو تمنّاؤں کے لشکر دے
مری اولاد کے ہاتھوں پہ رکھ دے علم کے سکّے
اِنہیں تُو اے خدا میرے، زرِ حُبِّ پیمبرؐ دے
قبائل کے قبائل سو رہے ہیں بند گلیوں میں
قبائل کو عزائم کی نئی دنیا کے منظر دے
بہت تاریک ہوتے جا رہے ہیں روز و شب میرے
دعاؤں، التجاؤں کو الٰہی ماہ و اختر دے
مری کلکِ ثنا سجدے میں گر کر رو پڑی اِمشب
ریاضِ خوشنوا کو آنسوؤں کے لاکھ دفتر دے