چشم پرنم سے کبھی چھلکے مدینے کی ہوا- برستی آنکهو خیال رکهنا (2018)
سبز پرچم لے کے پھر نکلے مدینے کی ہوا
فرش تا عرشِ علیٰ پھیلے مدینے کی ہوا
ہر دریچے میں چراغِ آرزو رکھنے کے بعد
دل گرفتہ شام میں اترے مدینے کی ہوا
سانس لوں جی بھر کے میں اِن آخری ایّام میں
میرے آنگن میں کبھی ٹھہرے مدینے کی ہوا
دونوں جانب پھول کرنوں کے سجائے چاندنی
رہگذارِ عشق سے گذرے مدینے کی ہوا
وَجد کے عالم میں ہیں نعتِ پیمبرؐ کے حروف
لب قلم کے اِس لئے چومے مدینے کی ہوا
بندگی کا نور بانٹے قریۂ اوہام میں
ہر مصلّے پر کرے سجدے مدینے کی ہوا
نعت کے اشعارِ دلکش یاد ہیں اِس کو تمام
پھر قلم ٹوٹا ہؤا مانگے مدینے کی ہوا
خوش نصیبی کی اِسے اک انتہا سمجھوں گا میں
حشر میں مجھ کو اگر ڈھونڈے مدینے کی ہوا
دور تک محرومیوں کا ایک صحرا ہے، حضورؐ
سر برہنہ ہوں، اِدھر دیکھے مدینے کی ہوا
تم گلی میں کھیلنے نکلے نہیں اِس شام بھی
میرے بچوں سے کبھی پوچھے مدینے کی ہوا
چاند تارے بجھ چکے ہیں آسمانوں پر حضورؐ
ہر افق پر روشنی رکھے مدینے کی ہوا
منتظر ہیں موسمِ گل میں چمن زاروں کے پھول
تخت خوشبو کا لئے اٹھے مدینے کی ہوا
ساحلِ امید پر ڈوبی ہیں میری کشتیاں
یا محمدؐ مصطفیٰ پہنچے مدینے کی ہوا
میں پسِ مژگاں بناؤں گنبدِ خضرا کا عکس
چشمِ پُرنم سے کبھی چھلکے مدینے کی ہوا
خوف کے تاریک جنگل میں نہیں جگنو کوئی
بن کے خورشیدِ سحر چمکے مدینے کی ہوا
شاخ پر سہمے ہوئے کب سے پرندے ہیں حضورؐ
گلشنِ پامال میں مہکے مدینے کی ہوا
سانس لینے میں بہت دشواریاں ہیں، یانبیؐ
میرے بنجر کھیت پر برسے مدینے کی ہوا
نام میرا بھی رفیقانِ مدینہ میں ریاضؔ
سامنے دیوار پر لکھے مدینے کی ہوا