سرحدِ عشق پیمبرؐ کا نہیں کوئی وجود- برستی آنکهو خیال رکهنا (2018)

ابتدا سے انتہا تک ہے بپا بزمِ شہود
آپؐ کے در کا بھکاری ہے جہانِ ہست و بود

خوشبوؤں کے لب پہ ہے صلِّ علیٰ کی نغمگی
آپؐ کے نقشِ قدم سے موسمِ گل کی نمود

ایک اک لمحہ سلامی کے لیے جھکتا رہا
ہر صدی دربارِ اقدس میں رہی محوِ درود

روشنی نے کل جہانوں کو مبارکباد دی
جب ہوا آغوشِ مکّہ میں پیمبرؐ کا ورود

اس قدر فضلِ خدائے آسماں اُنؐ پر ہوا
رحمتِ سرکارِ دو عالمؐ نہیں رکھتی حدود

کب تلک فرسودگی کی آندھیوں کا سلسلہ
کب تلک چھایا رہے گا فکرِ انساں پر جمود

ارتقا کے در پہ دستک اُن سے ممکن ہی نہیں
جن کے ہو اہداف میں شامل فقط رقص و سرور

مَیں نے سن رکھا ہے بچپن کے زمانے سے ریاضؔ
سرحدِ عشقِ پیمبرؐ کا نہیں کوئی وجود