اسلوبِ ثنا میرا سب سے ہے جدا آقاؐ- برستی آنکهو خیال رکهنا (2018)
تصویرِ ادب بن کر حاضر ہے ہوا، آقاؐ
لاتا ہے قلم میرا آداب بجا، آقاؐ
زخموں کی ردا اوڑھے آیا ہوں مدینے میں
بوصیری کے زخموں کا صدقہ ہو عطا، آقاؐ
ازبر ہیں جسے سارے اسباق غلامی کے
اِس شام عطا کیجیے وہ کلکِ رضاؒ، آقاؐ
کِھلتی ہے مرے لب پر افکار کی رعنائی
اِک جام تفکّر کا مَیں نے بھی پیا، آقاؐ
ہر اشک میں لپٹی ہے رودادِ شبِ فُرقت
ہر اشک میں ڈوبا ہے ہر حرفِ دعا، آقاؐ
کب سے ہے قلم رقصاں تحریر کے دامن میں
ہے میرا تخیّل بھی پروازِ ہما، آقاؐ
جھولی مری بھر دی ہے خود آپؐ کی رحمت نے
طیبہ کے بھکاری کو سب کچھ ہے ملا، آقاؐ
اوراق پہ آنکھیں ہیں لفظوں میں تمنائیں
یہ ساری بیاضیں ہیں سامانِ بقا، آقاؐ
بچوں کا مقدّر بھی کیا خوب مقدّر ہے
ہر پھول غلامی کا ماتھے پہ کھلا، آقاؐ
سینے کی ہر اک دھڑکن الفاظ میں رکھ دی ہے
اسلوبِ ثنا میرا سب سے ہے جدا، آقاؐ
تہذیب کے دامن پر چھینٹے ہیں اداسی کے
اِس عہدِ برہنہ کے سر پر بھی ردا، آقاؐ
اس حَبس کے عالم میں اُکھڑی ہوئی سانسیں ہیں
طیبہ کی چلے پُروا پھر بہرِ خدا، آقاؐ
بنجر یہ مری مٹی پیکر ہے دعاؤں کا
برسے جلے موسم میں رحمت کی گھٹا، آقاؐ
دستار تکبّر کی مَیں نے ہے جلا ڈالی
مَیں دفن ہوں کر آیا ہر جھوٹی اَنا، آقاؐ
مفلوج بدن کے کیا مَیں زخم چھپاؤں گا
بیمار ہوں برسوں سے، دیں آبِ شفا، آقاؐ
ہر لفظ کے دامن میں خوشبو ہے مدینے کی
کیا خوب ہتھیلی پر ہے رنگِ حنا، آقاؐ
ہر روز ریاضؔ آنسو بھیجے گا مدینے میں
لائے گی ثنا لکھ کر ہر روز صبا، آقاؐ