آپؐ کے در پر عطائیں ہی عطائیں ہیں، حضورؐ- برستی آنکهو خیال رکهنا (2018)
کاغذی کشتی ہے اور کالی گھٹائیں ہیں حضورؐ
میرے کشکولِ دعا میں التجائیں ہیں حضورؐ
ہر طرف محرومیوں کی راکھ ہے بکھری ہوئی
خون میں ڈوبی ہوئی لاکھوں صدائیں ہیں حضورؐ
بے بسی سی بے بسی لپٹی ہوئی ہے جسم سے
میرے ہونٹوں پر لرزتی سی دعائیں ہیں حضورؐ
جھاڑیوں میں چھپتی پھرتی ہیں سنہری تتلیاں
خوف سے سہمی ہوئی سب فاختائیں ہیں حضورؐ
سانس لینے کے لیے جائیں کہاں بچے مرے
جب مہاجن کی تجوری میں ہوائیں ہیں حضورؐ
نذرِ آتش ہو رہے ہیں آرزوؤں کے گلاب
حلقۂ نمرود میں ساری فضائیں ہیں حضورؐ
کس لیے در در پہ جا کر ٹھوکریں کھائے کوئی
آپؐ کے در پر عطائیں ہی عطائیں ہیں حضورؐ
جگنوؤں کو بھی یہاں جائے اماں ملتی نہیں
روشنی پر جبرِ شب کی انتہائیں ہیں حضورؐ
آپؐ کا شاعر کہاں جائے مدینہ چھوڑ کر
جسم میں سمٹی ہوئی کب سے وبائیں ہیں حضورؐ
یہ صدی بھی خون کی چادر میں ہے لپٹی ہوئی
ہر طرف بس کربلائیں کربلائیں ہیں حضورؐ
مَیں ریاضؔ بے نوا اس سوچ میں رہتا ہوں گم
راستہ بھولی ہوئی شاید دعائیں ہیں حضورؐ