کروڑوں دے ہمیں شبھ کامناؤں کے نئے موسم- برستی آنکهو خیال رکهنا (2018)

کِھلیں ہونٹوں پہ یارب! التجاؤں کے نئے موسم
ملیں مجھ کو کرم کی انتہاؤں کے نئے موسم

سوائے عجز کی چادر کے کچھ بھی تو نہیں میرا
ترے در پر میں لایا ہوں دعاؤں کے نئے موسم

کئی صدیوں سے پیاسے ہیں زمیں کے اَن گنت خطے
سمندر سے اٹھیں کالی گھٹاؤں کے نئے موسم

کرم کی آبجوئیں ہر طرف بہنیں لگیں، یارب!
عطا کر مجھ کو بھی نیلی فضاؤں کے نئے موسم

سماعت کھو گئی جنگل کی آوازوں کے مقتل میں
مرے چاروں طرف اتریں صداؤں کے نئے موسم

سمندر کے سمندر پی کے صحرا پھر بھی پیاسا ہے
عطا کر میرے بچوں کو ہواؤں کے نئے موسم

زمیں جھوٹے خداؤں کے تسلط سے رہا ہو گی
مرے قبضے میں دے میری نواؤں کے نئے موسم

مسلسل ہو شفایابی کی بارش میری بستی میں
چلے آتے ہیں گلیوں سے وباؤں کے نئے موسم

فراتِ عشق میں اک بوند پانی کی نہیں باقی
جلے خیموں میں اترے کربلاؤں کے نئے موسم

عطا کر عافیت کے شامیانوں میں پنہ گاہیں
نہیں مطلوب ہم کو ابتلاؤں کے نئے موسم

سکون و امن کی پُروا چلے گوٹھوں، گراؤں میں
صلیبِ وقت پر لٹکیں اَناؤں کے نئے موسم

در و دیوار پر فرسودگی کے نقش کیا بولیں
کروڑوں دے ہمیں شبھ کامناؤں کے نئے موسم

ریاضؔ اِن کو اجالے بانٹنے ہیں بزمِ ہستی میں
ملیں اہلِ قلم کو کہکشاؤں کے نئے موسم