ہاتھ خالی ہیں مِرے لب پر دعا کوئی نہیں- زر معتبر (1995)
ہاتھ خالی ہیں مِرے لَب پر دُعا کوئی نہیں
یانبیؐ، اِس دہر میں درد آشنا کوئی نہیں
ایک سناٹا مسلّط ہے لہو کی جھیل پر
وادیٔ جاں میں پرندہ پَر کشا کوئی نہیں
میں اُجالوں کا مسافر ہوں کہاں جاؤں حضورؐ
ہر طرف دیوارِ شب ہے راستہ کوئی نہیں
جرم یہ ہَے ہر اثاثے کو گنوا بیٹھا ہوں مَیں
کون کہتا ہے ضعیفی کو سزا کوئی نہیں
سوچتا ہوں تو ندامت سے جھکا لیتا ہوں سر
قید ہیں زر کے قفس میں سب، رہا کوئی نہیں
مطمئن ہے اِس طرح اپنی تباہی پر کوئی
انخلا کے بعد جیسے انخلا کوئی نہیں
یانبیؐ، کس سمت دیکھیں آپؐ کے ادنیٰ غلام
برف زاروں میں نمو کا سلسلہ کوئی نہیں
جتنے سورج تھے مِری تحویل میں وہ بُجھ چکے
راہ چلتا ہوں مگر اب دیکھتا کوئی نہیں
حَبس اتنا ہے کہ دم گھٹنے لگا ہے شہر میں
سیّدی یا مرشدی، برگِ ہوا کوئی نہیں
کیا یونہی کٹ جائے گی کرب و بلا میں زندگی
کیا مقدّر میں کِسی کے نقشِ پا کوئی نہیں
تِتلیاں حُبِ نبیؐ کی ہر طرف ہیں پَرفشاں
میرے اندر جھانک کر دیکھو خلا کوئی نہیں
روز ساحل کی خبر دیتی ہے اُنؐ کی آرزو
کیوں کہوں بحرِ الم میں ناخدا کوئی نہیں
آپؐ کا در ہے وہ در اے ثروتِ ارض و سما
جس درِ جود و کرم پر بے نوا کوئی نہیں
دامنِ خیر البشرؐ سے ہوں میں وابستہ ریاضؔ
دوسرا اب تا قیامت رہنما کوئی نہیں