سچ تو یہ ہے عید کے تہوار میں رہتے ہیں ہم- برستی آنکهو خیال رکهنا (2018)

مرغزارِ مدحتِ سرکارؐ میں رہتے ہیں ہم
شہرِ طیبہ کے در و دیوار میں رہتے ہیں ہم

لحظہ لحظہ جس پہ ہوتی ہیں کرم کی بارشیں
عشق کے اُس قریۂ انوار میں رہتے ہیں ہم

لمحہ لمحہ آسمانوں سے برستے ہیں گلاب
سچ تو یہ ہے عید کے تہوار میں رہتے ہیں ہم

جس پہ لکھے ہیں غلامی کے حروفِ افتخار
روزِ اوّل سے اُسی دستار میں رہتے ہیں ہم

سر ورق پر جس کے ہوتی ہے مدینے کی خبر
مستند اُس شام کے اخبار میں رہتے ہیں ہم

آفتابِ رنج و غم کی دھوپ سے کیا خوف ہو
کلکِ مدحت کے گھنے اشجار میں رہتے ہیں ہم

آپؐ کے نقشِ قدم کو ڈھونڈتے ہیں، یانبیؐ
آپؐ ہی کے سرمدی افکار میں رہتے ہیں ہم

جن دنوں سے ہے مقدّر مدحتِ خیرالبشرؐ
اُن دنوں سے وقت کی رفتار میں رہتے ہیں ہم

روشنی کا ہے مدینے کی کنیزوں میں شمار
جگمگاتے کوچہ و بازار میں رہتے ہیں ہم

خواب کو تعبیر ملتی ہے جہاں میرے رفیق
اُس گلی کی ہر شبِ بیدار میں رہتے ہیں ہم

ہم گئے گذرے سہی اِس دورِ ناہموار میں
نعرۂ تکبیر کی للکار میں رہتے ہیں ہم

سانس لیتے ہیں مدینے کی فضاؤں میں ریاضؔ
نور میں ڈوبے ہوئے آثار میں رہتے ہیں ہم