ستارا آسمانوں پر رہے حرفِ مکرر کا- برستی آنکهو خیال رکهنا (2018)
ملے پَرنا غلاموں کو خس و خاشاکِ انور کا
خدا سب کو دکھائے گنبدِ اخضر پیمبرؐ کا
مقدّر کے ستارے میرے آنگن میں اتر آئیں
کسی شب، یاخدا! دیدار ہو روئے منوّر کا
حضوری کے عطا ہوں روز و شب خلدِ مدینہ میں
ملے اذنِ سفر بارِ دگر شہرِ مصوّر کا
انہیؐ کے خیمۂ ابرِ شفاعت سے ملے شبنم
خنک موسم کے سائے میں رہے خورشید محشر کا
گلستانِ سخن میں خوشبوئیں رقصاں رہیں، یارب!
مشامِ جاں مہکتا ہی رہے شامِ معطّر کا
چراغِ نعت سے روشن رہیں دیوار و در گھر کے
چراغِ آرزو روشن رہے ہر اک سخنور کا
ورق پر چاند تاروں کے ملیں جھرمٹ، کھلیں کلیاں
قلم پر آسماں اترے کروڑوں ماہ و اختر کا
کوئی ساحل مدینے کا نہ چھوڑے روزِ محشر بھی
رہے پندار خالی واپسی کے ہر سمندر کا
کلامِ شاعرِ سرکارِ دو عالمؐ سند ٹھہرے
ستارا آسمانوں پر رہے حرفِ مکرّر کا
سفر لوح و قلم کا تا ابد جاری رہے مولا!
پڑاؤ ایک بھی نَے ہو ثنا گوئی کے لشکر کا
ورق میری بیاضِ نعت کے بادِ صبا الٹے
قلمداں کا قلمداں ہے دبستاں عود و عنبر کا
مری ہر حاضری تبدیل ہو جائے حضوری میں
شبِ میلاد جھوم اٹھے ہر اک پتھر مرے گھر کا
پرندے آشیانوں میں جلائیں مشعلِ مدحت
رہے روشن چراغِ بندگی محراب و منبر کا
کٹہرے میں کھڑے ہیں امتِ مظلوم کے بچے
مداوا کوئی یارب! انتشارِ کربِ خاطر کا
جزیروں تک رسائی کاغذی کشتی کو دیتا ہے
محافظ ہے خدائے مصطفیٰؐ پانی کے پیکر کا
تجلی ہی تجلی ہے مرے آقائے رحمت کی
کمال اس میں بھلا کیا ہے کسی دستِ سخنور کا
اگر کشکول میں ساری خدائی بھی سمٹ آئے
ریاضِؔ نعت گو سائل رہے گا آپؐ کے در کا