وہی تشنہ لبی ہے عصرِ نو کی کربلاؤں میں- برستی آنکهو خیال رکهنا (2018)
بکھر جائیں گے میرے اشک جب نیلی فضاؤں میں
قلم عشقِ نبیؐ کے پھول بانٹے گا ہواؤں میں
زمیں جس پر مدینہ ہے اِسے میں چھوڑ دوں کیسے
بسیں آدم کی نسلیں شوق سے جا کر خلاؤں میں
مدینہ ہی مدینہ میری آنکھوں سے چھلکتا ہے
مدینہ ہی مدینہ ہے مرے دل کی صداؤں میں
چراغِ مدحتِ خیرالبشرؐ جلتے رہیں یارب!
مرے خطوں، مرے شہروں، مرے گوٹھوں گراؤں میں
خدا کا شکر ہے ہم قریۂ عشقِ نبیؐ میں ہیں
ثنا دن رات ہوتی ہے سخن کی اپسراؤں میں
ہزاروں تتلیاں جگنو رواں ہیں جانبِ طیبہ
درودِ پاک پڑھتے ہیں ستارے کہکشاؤں میں
سحر سے شام تک اشکوں کو پلکوں پر برسنا ہے
حروفِ آرزو لپٹے رہیں بھیگی رداؤں میں
مرے اسلوبِ مدحت کا تعارف ہیں مری آنکھیں
مری کلکِ ثنا رہتی ہے نم پلکوں کی چھاؤں میں
وسیلہ آپؐ کی نعلین کا ہر التجا میں ہے
قبولیت کے لاکھوں رنگ ہیں میری دعاؤں میں
مرے آقاؐ نے طیبہ سے شفا کے پھول بھیجے ہیں
چراغِ عافیت جلنے لگے شب کی نواؤں میں
یہ کیا کم ہے کہ سر پر تاج ہے اُن کی غلامی کا
مرا بھی نام آئے گا سرِ محشر گداؤں میں
برستی ہے مرے احوال پر رحمت پیمبرؐ کی
رکھا ہے آپؐ نے مجھ کو کرم کی انتہاؤں میں
مرے دکھ درد چن لیتی ہے طیبہ سے ہوا آ کر
مرے آنسو سمٹ جاتے ہیں رحمت کی گھٹاؤں میں
مری بخشش کی بھی کرنا دعا ربِّ محمد سے
مجھے بھی یاد رکھنا آخرِ شب التجاؤں میں
ادب سے آپؐ کے در پر پڑی ہیں کتنی صدیوں سے
عجب سا خوف ہے امن و اماں کی فاختاؤں میں
وہی گرتے ہوئے لاشے، وہی جلتے ہوئے خیمے
وہی تشنہ لبی ہے عصرِ نو کی کربلاؤں میں
ریاضؔ عجزِ مسلسل پیرہن عمرِ رواں کا ہو
ابھی شعلے بھڑکتے ہیں مری جھوٹی اناؤں میں