خدا والے نصابِ ساقیٔ کوثرؐ میں کھو جائیں- برستی آنکهو خیال رکهنا (2018)

چلو اس شہرِ دلکش کے ہر اک منظر میں کھو جائیں
ہر اک ذرّے کے رخشندہ مہ و اختر میں کھو جائیں

در و دیوار پر پلکیں بچھا دیں فرطِ حیرت سے
حلیمہ! تیرے گھر کے ایک اک پتھر میں کھو جائیں

ثنا کرتے ہوئے نکلیں پرندے آشیانوں سے
ادب سے پھر فضائے گنبدِ اخضر میں کھو جائیں

چمن کی خوشبوئیں کر کے چراغِ آرزو روشن
ہوائے نور میں اڑتے ہوئے عنبر میں کھو جائیں

قیامِ امنِ عالم کے ملیں گے ضابطے لاکھوں
خدا والے نصابِ ساقیٔ کوثر میں کھو جائیں

مجھے تو شہرِ طیبہ کی گذرگاہیں بھی ازبر ہیں
نہیں ممکن کہ بچے گنبدِ بے در میں کھو جائیں

جہاں کاغذ کی کشتی بھی نہیں ڈوبی مرے ساتھی
اسی نورِ حرم کے بیکراں ساگر میں کھو جائیں

دیے طیبہ کی مٹی سے بنانے کو ملے منصب
حریفانِ چراغِ شب، شبِ محشر میں کھو جائیں

کروڑوں چاند تارے بھیک لیتے ہیں جہاں آ کر
ریاضؔ اس روشنی کے مرکز و محور میں کھو جائیں

*

تقاضا بندگی کا ہے یہی آدم کی اولادو
ہم اک اک سانس شامِ التجا کے نام لکھ جائیں